جرمنی: حکمران سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ ناہلس مستعفی
2 جون 2019
جرمن سیاسی جماعت ایس پی ڈی کی سربراہ آندریا ناہلس یورپی پارلیمانی الیکشن میں اپنی پارٹی کی خراب کارکردگی کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئی ہیں۔ انہوں نے جرمن پارلیمان میں اپنی رکنیت سے استعفے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
اشتہار
مرکز سے بائیں باز وکی طرف جھکاؤ رکھنے والی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) برلن میں وفاقی چانسلر انگیلا میرکل کی قیادت میں موجودہ وسیع تر مخلوط حکومت میں شامل چھوٹی سیاسی جماعت ہے۔ اس کی سربراہ آندریا ناہلس کے آج اتوار دو جون کو مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد میرکل حکومت ممکنہ طور پر سیاسی عدم استحکام کا شکار بھی ہو سکتی ہے۔
SPD کی 150 سالہ تاریخ
وفاقی جمہوریہء جرمنی کی ایک بڑی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (SPD) ان دنوں اپنے قیام کے 150 سال منا رہی ہے۔ ’ ایس پی ڈی‘ کی ہنگامہ خیز تاریخ پابندیوں، جلا وطنی ، تعاقب، شکست اور کامیابیوں سے عبارت رہی ہے۔
تصویر: picture alliance / dpa
ایس پی ڈی کا قیام
یہ جماعت شہر لائپسگ میں جرمن مزدوروں کی تحریک کے دوران 23 مئی 1863ء کو قائم ہوئی تھی۔ ولی برانٹ ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے پہلے چانسلر تھے، جو پارٹی کے قیام کے تقریباً سو سال کے بعد اس عہدے پر فائز ہوئے۔ ان ڈیڑھ سو برسوں میں اب تک تین سوشل ڈیموکریٹ جرمن سربراہ حکومت بن چکے ہیں۔
تصویر: DW
غیر قانونی حیثیت سے مزدور انجمن تک کا سفر
ارکان کے ابتدائی اجلاس خفیہ مقامات پر موم بتیوں کی روشنی میں منعقد ہوتے تھے۔ آؤگسٹ بیبل اور ولہیلم لیب کنیشٹ بانی ارکان کی حیثیت سے ان میں شریک ہوتے تھے۔ ایس پی ڈی کا نصب العین مزدوروں کے حق میں آواز بلند کرنا تھا۔ فرڈینانڈ لازال نے 1863ء میں ADAV کے نام سے ایک مزدور انجمن کی بنیاد رکھی تھی۔ 1872ء میں ان ارکان کی تعداد بڑھ کر اکیس ہزار ہو چکی تھی اور پھر بڑھتی ہی چلی گئی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
پابندیوں کے باوجود کامیاب
صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں لوگوں کو اجرت اور کھانے کو روٹی ملنے لگی لیکن مزدوروں کے حالات ناگفتہ بہ تھے۔ بھاری صنعتوں میں کام سخت اور صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ تھا۔ مزدور انجمنوں میں بڑھتی رکنیت کے آگے 1878ء کے سوشلسٹ قوانین کے ذریعے بند باندھنے کی کوشش کی گئی اور سوشل ڈیموکریٹ تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی۔ اس کے باوجود ایس پی ڈی 1890ء تک ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر چکی تھی۔
تصویر: Ullstein Bild
ایس پی ڈی کی تنظیمی درسگاہ
برلن میں ایس پی ڈی کی پارٹی درس گاہ میں روزا لکسمبرگ اور آؤگسٹ بیبل جیسے ممتاز سوشل ڈیموکریٹس نے تربیت حاصل کی۔ اپنے والد ولہیلم بیبل اور اُن کے الفاظ کی یاد میں:’’علم طاقت ہے، طاقت علم ہے۔‘‘ 1912ء تک ایس پی ڈی جرمنی میں سب سے زیادہ ارکان کی حامل اور سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت بن چکی تھی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
وائیمار کا ہنگامہ خیز دور
ایس پی ڈی کے سیاستدان فلیپ شائیڈے مان برلن اسمبلی (رائش ٹاگ) کی بالکونی میں۔ اُنہوں نے نو نومبر 1918ء کو ری پبلک بنانے کا اعلان کیا تھا۔ ایک سال بعد ہی ایس پی ڈی کے چیئرمین فریڈرش ایبرٹ رائش چانسلر بن گئے اور خواتین کے لیے ووٹ کا حق بھی ایک حقیقت بن گیا، جس کے لیے یہ جماعت 1891ء سے کوششیں کر رہی تھی۔ سوشل ڈیموکریٹس 1932ء تک مضبوط ترین سیاسی قوت رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نازی حکومت کی شدید مخالفت
23 مئی 1933 کو سوشل ڈیموکریٹ رکن پارلیمان اوٹو ویلز نے جرمن پارلیمان میں ہٹلر کے متنازعہ قوانین کے خلاف آواز بلند کی۔ انہوں نے کہا کہ ’ہماری آزادی اور زندگی تو ہم سے چھینی جا سکتی ہے، لیکن ہماری عزت کا سودا نہیں کیا جا سکتا ‘‘۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد مزدور تنظیموں کو کچل دیا گیا اور ایس پی ڈی پر پابندی عائد کر دی گئی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
تعاقب اور جلا وطنی
ہٹلر کے جنگی دستوں کے باوردی ارکان کی نگرانی میں سوشل ڈیموکریٹ رہنماؤں کو دیواروں پر سے نعرے ہٹانا پڑے۔ متعدد سوشل ڈیموکریٹس کو حراست میں لے لیا گیا، جبر و تشدد کا نشانہ بنایا گیا یا قتل کر دیا گیا۔ اوٹو ویلز نے 1933ء میں پراگ میں ایس پی ڈی کی جلا وطن شاخ Sopade کی بنیاد رکھی، جو بعد میں پیرس اور 1940ء تا 1945ء لندن میں سرگرم رہی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
ایس پی ڈی کا نیا دور
1946ء میں فرینکفرٹ میں کُرٹ شوماخر خطاب کر رہے ہیں، جو اتحادی افواج کے زیر قبضہ مغربی جرمن علاقوں میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ تھے۔ سابق سوویت یونین کے زیر اثرعلاقوں میں ایس پی ڈی اور کے پی ڈی کو زبردستی ایس ای ڈی میں شامل کر دیا گیا۔ مغربی حصے میں 1949ء میں منعقدہ پہلے پارلیمانی انتخابات میں سوشل ڈیموکریٹس کو CSU کے ہاتھوں شکست ہوئی اور پھر کئی سال تک کے لیے یہ جماعت اپوزیشن میں چلی گئی۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
ایک مزدور تنظیم سے ایک جدید عوامی جماعت تک
1959ء میں گوڈیز برگر پروگرام کی منظوری دیتے ہوئے سوشل ڈیموکریٹس نے مثالی سوشلسٹ نظریات کو خیر باد کہہ دیا اور اپنے دروازے رائے دہندگان کے وسیع تر طبقات کے لیے کھول دیے۔ ایس پی ڈی نے سماجی فلاح پر مبنی آزاد معیشت اپنانے اور ملک کا دفاع کرنے کا عزم ظاہر کیا، جو کہ سی ڈی یُو اور سی ایس یُو کے ساتھ اُس بڑی مخلوط حکومت میں شمولیت کی شرائط تھیں، جس میں 1966ء سے ولی برانٹ نائب چانسلر بن گئے۔
تصویر: AdsD der Friedrich-Ebert-Stiftung
ولی برانٹ کے زیر سایہ ایک نیا آغاز
وارسا میں گھٹنے ٹیکتے ہوئے سوشل ڈیموکریٹ چانسلر ولی برانٹ نے اپنی حکومت کی مشرقی یورپ کی جانب نئی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی۔ اُن کے پہلے حکومتی پالیسی بیان کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ’زیادہ جمہوریت کی ہمت کی جائے‘۔ بعد کے برسوں میں برانٹ نے قانون، خاندان اور مساوی حقوق کے شعبوں میں کئی ایک اصلاحات متعارف کروائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پارٹی کے اندر احتجاجی تحریک
1968ء میں طلبہ کی ہنگامہ خیز احتجاجی تحریک کے نتیجے میں پارٹی میں شامل ہونے والے ارکان تازہ ہوا کا ایک جھونکا تھے تاہم وہ پارٹی کے اندر تنازعات کو ہوا دینے کا بھی باعث بنے۔ 1974ء میں ہائیڈے ماری وچورک سوئیل کی صورت میں پہلی مرتبہ ایک خاتون یوتھ وِنگ کی سربراہ منتخب ہوئیں۔
تصویر: ullstein bild
ہیلمٹ شمٹ اور’ جرمن خزاں‘
چانسلر ہیلمٹ شمٹ کے دور حکومت کے مشکل ترین لمحات میں سے ایک لمحہ وہ تھا، جب چانسلر نے 1977ء میں آجرین کی تنظیم کے مقتول صدر ہنس مارٹن شلائر کی بیوہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ بائیں بازو کی انتتہا پسند تنظیم ’ریڈ آرمی فیکشن‘ کی دہشت گردانہ سرگرمیاں شمٹ کے لیے ایک آزمائش کی حیثیت اختیار کر گئیں۔ پارٹی میں اندرونی تنازعات بھی زور پکڑ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
حزب اختلاف کی حیثیت سے مشکل دور
1982ء میں سوشل لبرل اتحاد کے ختم ہونے کے بعد ایس پی ڈی ایک بار پھر کسی سال کے لیے اپوزیشن میں چلی گئی۔ 1994ء میں جرمن پارلیمان کے انتخابات میں ایس پی ڈی کے روڈولف شارپنگ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد پارٹی کے اندر ہونے والی ووٹنگ میں وہ پارٹی قائد کے انتخاب میں غیر متوقع طور پر صوبے زار لینڈ کے وزیر اعلیٰ آسکر لافونتین سے ہار گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایس پی ڈی اور اصلاحات کا چیلنج
ہیلمٹ کوہل کے کئی سالہ دور کے بعد ستمبر 1998ء میں ایس پی ڈی کی حکومت بنی۔ ماحول دوست گرین پارٹی کے ساتھ بننے والی اس مخلوط حکومت میں گیرہارڈ شروئیڈر ایس پی ڈی کی جانب سے چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس دوران شروئیڈر نے ایجنڈا 2010ء کے نام سے اصلاحات کا ایک جامع پروگرام شروع کیا۔ ٹریڈ یونین تنظیموں نے سخت تنقید کی اور ارکان تیزی سے اس جماعت کو چھوڑ کر نئی جماعت ’دی لِنکے‘ میں شامل ہونے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چانسلر شپ کے مشکل امیدوار
پیئر اشٹائن بروک ستمبر میں ہونے والے انتخابات میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے چانسلر شپ کے امیدوار ہیں۔ سابق وزیر مالیات کو اقتصادی ماہر کی حیثیت سے اس بحرانی دور میں اس عہدے کے لیے موزوں امیدوار قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم اشٹائن بروک کو اپنے بے باک بیانات کی وجہ سے اکثر اپنی پارٹی کے اندر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں میں وہ انگیلا میرکل سے بہت پیچھے ہیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
15 تصاویر1 | 15
لیکن برلن میں چانسلر میرکل کی پارٹی کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ اس استعفے سے وفاقی حکومت کسی عدم استحکام کا شکار نہیں ہو گی کیونکہ یہ حکومت ایک باقاعدہ حکومتی معاہدے کے تحت قائم ہوئی تھی اور یہ معاہدہ تاحال مؤثر ہے۔
تین سیاسی عہدے
ناہلس کے پاس سیاسی طور پر کل تین عہدے تھے، ایس پی ڈی کی سربراہ، اس پارٹی کے پارلیمانی حزب کی قائد بھی اور وفاقی جرمن پارلیمان کے بنڈس ٹاگ کہلانے والے ایوان زیرین کی رکن بھی۔
انہوں نے آج اپنے اعلان میں کہا کہ وہ پارٹی قیادت، ایس پی ڈی کے پارلیمانی دھڑے کی سربراہی اور پارلیمان میں اپنی رکنیت سبھی ذمے داریوں سے مستعفی ہو رہی ہیں۔
ناہلس نے اپنے مستعفی ہونے کا اعلان پارٹی کی اندرونی صفوں سے خود پر کی جانے والی تنقید کے بعد کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ اپنی جماعت کے اراکین کو یہ موقع دینا چاہتی ہیں کہ وہ ایک منظم طریقہ کار کے تحت اپنے لیے نئے سربراہ کا انتخاب کر سکیں۔
پارٹی کی عوامی مقبولیت میں واضح کمی
ناہلس نے پارٹی کے ارکان کے نام اپنے ایک خط میں لکھا کہ وہ محسوس کرتی ہیں کہ حالیہ یورپی پارلیمانی انتخابات میں ایس پی ڈی کے لیے عوامی تائید و حمایت میں جو کمی دیکھنے میں آئی، اور جس کے بعد ان پر شدید تنقید کی کی جانے لگی تھی، اس کی وجہ ان کی قیادت پر پارٹی اراکین کے اعتماد میں کمی بھی ہے۔
ایس پی ڈی کا اجلاس - جرمنی کے سیاسی مستقبل کا سوال
جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی انگیلا میرکل کی سی ڈی یو کے ساتھ نئی مخلوط حکومت میں شمولیت کے معاملے پر منقسم ہے۔ آج جرمن شہر بون میں ایس پی ڈی نئی وفاقی مخلوط حکومت میں اپنی شمولیت سے متعلق حتمی فیصلہ کرے گی۔
تصویر: DW/B. Ünveren
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے اجلاس میں ارکان مخلوط حکومت میں شامل ہونے کے بارے میں حتمی فیصلے کے لیے رائے شماری میں حصہ لے رہے ہیں
تصویر: DW/B. Ünveren
پارٹی سربراہ مارٹن شلس چانسلر میرکل کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے خواہش مند ہیں
تصویر: picture alliance/dpa/F. Gambarini
لیکن ایس پی ڈی کے نوجوان ارکان اس کی مخالفت کر رہے ہیں
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
ایس پی ڈی نے حال ہی میں میرکل کے قدامت پسند اتحاد کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے
تصویر: picture alliance/dpa/abaca/M. Gambarini
اس معاہدے کے نکات پر پارٹی کے چند سرکردہ رہنما بھی نالاں ہیں
تصویر: picture alliance/dpa/O. Berg
تاہم ایس پی ڈی کے زیادہ تر نوجوان مخلوط حکومت بنانے کے بجائے نئے انتخابات کے حق میں ہیں
تصویر: DW/B. Ünveren
چانسلر میرکل کو امید ہے کہ آج کے اجلاس میں ایس پی ڈی مخلوط حکومت میں شرکت کا فیصلہ کرے گی
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
7 تصاویر1 | 7
آندریا ناہلس نے لکھا کہ وہ ایس پی ڈی کی مرکزی رہنما کے طور پر پیر تین جون کو مستعفی ہو جائیں گی اور پھر منگل چار چون کو وہ بنڈس ٹاگ میں ایس پی ڈی کے پارلیمانی دھڑے کی قیادت سے بھی علیحدگی اختیار کر لیں گی۔
میرکل کے مرکزی حریف مارٹن شُلس کا سیاسی کیریئر
سوشل ڈیموکریٹک رہنما مارٹن شلس نے میرکل کے خلاف انتخابات میں حصہ لینے کے لیے یورپی پارلیمان کی سربراہی چھوڑی تھی۔ تاہم وہ میرکل سے شکست کھا گئے۔ میرکل کے خلاف انتخابات لڑنے والے مارٹن شلس ہیں کون؟
تصویر: Reuters/W. Rattay
یورپی پارلیمان کے سابق اسپیکر
رواں برس کے آغاز تک شلس ایک یورپی سیاستدان تھے۔ وہ یورپی سوشلسٹ بلاک کے سربراہ اور 2012ء سے 2017ء تک یورپی پارلیمان کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں۔ تاہم اب شلس میرکل کے مقابلے میں چانسلر شپ کے امیدوار ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان سے پہلے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے تین امیدوار میرکل کو شکست دینے میں ناکام رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/Dpa/dpa
ایک متحرک شخصیت
مارٹن شلس کا تعلق ویورزیلین نامی علاقے سے ہے۔ آخن کے قریب واقع اس شہر کی آبادی محض اڑتیس ہزار ہے۔ شلس اب بھی اسی چھوٹے سے شہر میں ہی رہتے ہیں۔ وہ 1987ء سے 1998ء یعنی گیارہ برسوں تک اس شہر کے میئر بھی رہے۔ ان کی کتابوں کی ایک دکان بھی ہے، جو وہ اپنی بہن کے ساتھ مل کر چلاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
مارٹن شلس اور ملالہ یوسفزئی
پاکستان میں طالبان کے حملے میں شدید زخمی ہونے والی ملالہ یوسف زئی نے سن دو ہزار تیرہ میں انسانی حقوق کے لیے یورپی پارلیمنٹ کا اعلیٰ ایوارڈ سخاروف پرائز جیتا تھا۔ تب شلس یورپی پارلیمان کے اسپیکر تھے اور انہوں نے ہی یہ ایوارڈ ملالہ کے حوالے کیا تھا۔
تصویر: Reuters
فٹ بالر بننے کا خواب
شلس 1955ء میں ایک پولیس افسر کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سے سب سے چھوٹے ہیں۔ وہ فٹ بالر بننا چاہتے تھے لیکن گھٹنے کی چوٹ نے ان کا خواب چکنا چور کر دیا۔ 1970ء کی دہائی کے وسط میں یعنی بیس سال کی عمر میں وہ ایک برس تک بے روز گار بھی رہے۔ شلس اپنے ماضی پر کھل کر بات کرتے ہیں، ’’میں ایک لاابالی اور بے پرواہ لڑکا تھا اور اچھا طالب علم بھی نہیں تھا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
سایست میں قدم
شلس 1974 سے ہی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) میں کافی متحرک ہو چکے تھے۔ بتیس سال کی عمر میں جب وہ اپنے شہر کے میئر بنے تو اس وقت وہ جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں اپنی پارٹی کے سب سے کم عمر ترین رہنما تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Sevenich
چانسلرشپ کے لیے امیدوار
جنوری 2017ء میں شلس کو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے چانسلرشپ کا امیدوار منتخب کیا گیا۔ اس کے فوری بعد اپنے ایک انٹرویو میں شلس نے کہا، ’’مایوسی جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔‘‘ ان کے بقول شہریوں کو اگر یہ احساس ہو کہ وہ تو سماج کے لیے کچھ کر رہے ہیں لیکن سماج ان کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہا اور نہ ہی انہیں عزت دے رہا ہے، تو ان کا مزاج جارحانہ ہو جاتا ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/HMB Media/H. Becker
امریکی صدر ٹرمپ پر تنقید
سن 2016 میں شلس نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پوری دنیا کے لیے ایک مسئلہ ہیں اور انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کو انہوں نے یورپ میں عوامیت پسندوں سے نتھی کیا۔ انہوں نے ٹرمپ کو ایک غیر ذمہ دار شخص بھی کہا تھا۔ شلس نے برسلز اور اسٹراس برگ میں بارہا یہ ثابت کیا کہ وہ ایسے موضوعات پر بھی کھل کر اپنا موقف بیان کر سکتے ہیں، جن کی وجہ سے شاید انہیں جرمنی کی داخلہ سیاست میں تنقید کا سامنا کرنا پڑے۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
انتخابی مہم میں خارجہ پالیسی
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے بارے میں سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان شلس کا کہنا ہے، ’’روس جو کر رہا ہے، وہ بالکل نا قابل قبول ہے۔ روس کے جارحانہ اقدامات کا باہمی احترام کے یورپی فلسفے سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں بھی اپنے انہی خیالات کا برملا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini
جیت کے امکانات کم ہیں
تمام جوش و خروش اور ولولے کے باوجود ایسا امکان دکھائی نہیں دیتا کہ شلس چانسلر میرکل کو شکست دے پائیں گے۔ پارٹی کی جانب سے چانسلر کے عہدے کا امیدوار بننے کے بعد جنوری اور فروری میں مختصر مدت کے لیے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی مقبولیت تیزی سے بڑھی تھی۔ فروری میں میرکل کے چونتیس فیصد کے مقابلے میں شلُس کی عوامی مقبولیت پچاس فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ تاہم اب الیکشن سے قبل یہ اعداد و شمار بالکل ہی بدل چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
’میں ہی چانسلر بنوں گا‘
عوامی جائزوں میں اپنی پارٹی کی مقبولیت میں کمی کے باوجود شلس بہت پرامید ہیں اور وہ ان ووٹروں کو قائل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، جو ابھی تک اپنا فیصلہ نہیں کر سکے کہ 24 ستمبر کو وہ کس پارٹی کو ووٹ دیں گے۔ اگست میں انہوں نے نشریاتی ادارے ’زیڈ ڈی ایف‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا، ’چانسلر میں ہی بنوں گا۔‘‘
تصویر: Getty Images/M. Hitij
’جمہوریت ہی واحد راستہ‘
مارٹن شلس کا کہنا ہے کہ ’اگر جمہوریت لوگوں کو تحفظ کا احساس نہیں دے گی تو وہ متبادل تلاش کریں گے‘۔ ناقدین کے مطابق شلس اپنی پارٹی کی مقبولیت میں بہتری کا باعث بنے ہیں لیکن میرکل کو شکست دینا ان کے لیے ایک مشکل کام ہو گا۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Kappeler
اپنی اہلیہ کے ساتھ
مارٹن شلس اور ان کی اہلیہ اِنگے شلس کی گزشتہ برس جرمن شہر آخن میں لی گئی ایک تصویر۔ شلس اپنی خوشگوار ازدواجی زندگی کو اپنی کامیابی کے لیے انتہائی اہم قرار دیتے ہیں۔ مارٹن اور اِنگے شلس دو بچوں کے والدین ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
12 تصاویر1 | 12
ناہلس کے استعفے کی مرکزی وجہ یہ بنی کہ مئی کے اواخر میں یورپی پارلیمان کے انتخابات میں جرمنی میں موجودہ مخلوط حکومت میں شامل تینوں جماعتوں (میرکل کی سی ڈی یو، صوبے باویریا میں اس کی ہم خیال قدامت پسند جماعت سی ایس یو اور سوشل ڈیموکریٹس کی ایس پی ڈی) کی عوامی مقبولیت میں کمی ہوئی تھی اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کی تائید میں واضح اضافہ ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ان انتخابات میں اسلام اور مہاجرین کی مخالفت کرنے والی انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی یا اے ایف ڈی کی عوامی حمایت میں بھی اضافہ ہوا تھا۔
ایس پی ڈی کی پہلی خاتون سربراہ
آندریا ناہلس اپریل 2018ء میں ایس پی ڈی کی سربراہ بنی تھیں۔ اس سے پہلے وہ ستمبر 2017ء سے اس پارٹی کے پارلیمانی دھڑے کی سربراہ بھی چلی آ رہی تھیں۔ ناہلس سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ بننے والی جرمنی کی پہلی خاتون سیاستدان تھیں۔
جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ملک کی سب سے پرانی سیاسی جماعت سمجھی جاتی ہے، جس کا قیام 1863ء میں عمل میں آیا تھا۔ اس حوالے سے یہ وہ قدیم ترین جرمن سیاسی جماعت بھی ہے، جو آج بھی جرمن پارلیمان میں نمائندگی کی حامل ہے۔
ایس پی ڈی 2013ء سے برلن میں میرکل کی پارٹی سی ڈی یو اور اس کی ہم خیال قدامت پسند جماعت سی ایس یو کے ساتھ مل کر ایک سیاسی اتحاد کی صورت میں اقتدار میں ہے۔ یہی ایس پی ڈی اور دونوں یونین جماعتیں گزشتہ دو مرتبہ کے عام انتخابات میں اپنے اپنے لیے کوئی بھی واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہنے کے بعد مل کر ایک وسیع تر مخلوط حکومت بنانے پر مجبور ہو گئی تھیں۔
م م / ع ت / اے ایف پی، ڈی پی اے
انگیلا میرکل کے دور اقتدار کے کچھ انتہائی اہم لمحات
انگیلا میرکل کے قدامت پسند سیاسی اتحاد نے چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی جرمن چانسلر کے عہدے پر فائز ہونے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M.Schreiber
ہیلموٹ کوہل کی جانشین
انگیلا میرکل ہیلموٹ کوہل کے بعد پہلی مرتبہ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی نگران سربراہ بنی تھیں۔ انہیں اس سیاسی پارٹی کی قیادت کو اب تقریبا سترہ برس ہو چکے ہیں جبکہ انہوں نے سن دو ہزار پانچ میں پہلی مرتبہ جرمن چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا۔
تصویر: imago/Kolvenbach
پہلا حلف
’میں جرمنی کی خدمت کرنا چاہتی ہوں‘، بائیس نومبر 2005 کو انگیلا میرکل نے یہ کہتے ہوئے پہلی مرتبہ چانسلر شپ کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ انہیں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر بننے کا اعزاز تو حاصل ہوا ہی تھا لیکن ساتھ ہی وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی ایسی پہلی شخصیت بھی بنیں، جس کا تعلق سابقہ مشرقی جرمنی سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Bergmann
میرکل اور دلائی لامہ کی ملاقات
میرکل نے بطور چانسلر اپنے دور کا آغاز انتہائی عجزوانکساری سے کیا تاہم جلد ہی انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو لوہا منوا لیا۔ 2007ء میں میرکل نے دلائی لامہ سے ملاقات کی، جس سے بیجنگ حکومت ناخوش ہوئی اور ساتھ ہی جرمن اور چینی تعلقات میں بھی سرد مہری پیدا ہوئی۔ تاہم میرکل انسانی حقوق کو مقدم رکھتے ہوئے دیگر تمام تحفظات کو نظر انداز کرنا چاہتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schreiber
پوٹن کے کتے سے خوفزدہ کون؟
میرکل نہ صرف مضبوط اعصاب کی مالک ہیں بلکہ وہ منطق کا دامن بھی کبھی نہیں چھوڑتیں۔ تاہم روسی صدر پوٹن جرمن چانسلر کا امتحان لینا چاہتے تھے۔ میرکل کتوں سے خوفزدہ ہوتی ہیں، یہ بات پوٹن کو معلوم ہو گئی۔ سن 2007 میں جب میرکل روس کے دورے پر سوچی پہنچیں تو پوٹن نے اپنے کتے کونی کو بلاروک ٹوک میرکل کے قریب جانے دیا۔ تاہم میرکل نے میڈیا کے موجودگی میں مضبوط اعصاب دکھائے اور خوف کا کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Astakhov
پرسکون میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکل مسائل کے باوجود بھی پرسکون دکھائی دیتی ہیں۔ سن 2008 میں جب عالمی مالیاتی بحران پیدا ہوا تو میرکل نے یورو کو مضبوط بنانے کی خاطر بہت زیادہ محنت کی۔ اس بحران میں ان کی حکمت عملی نے میرکل کو’بحرانوں کو حل کرنے والی شخصیت‘ بنا ڈالا۔ میرکل کی کوششوں کی وجہ سے ہی اس بحران میں جرمنی کی معیشت زیادہ متاثر نہیں ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/epa/H. Villalobos
دوسری مرتبہ چانسلر شپ
ستائیس ستمبر 2009ء کے انتخابات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کر لی۔ اس مرتبہ میرکل نے فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے ساتھ اتحاد بنایا اور دوسری مرتبہ چانسلر کے عہدے پر منتخب کی گئیں۔
تصویر: Getty Images/A. Rentz
جوہری توانائی کا پروگرام اور مخالفت
انگیلا میرکل کوالیفائڈ ماہر طبیعیات ہیں، غالبا اسی لیے وہ حتمی نتائج کے بارے میں زیادہ سوچتی ہیں۔ تاہم انہوں نے فوکو شیما کے جوہری حادثے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ جاپان میں ہوئے اس خطرناک حادثے کے بعد جرمنی میں جوہری توانائی کے حامی فوری طور پر ایٹمی توانائی کے مخالف بن گئے۔ یوں میرکل کو بھی جرمن جوہری ری ایکٹرز کو بند کرنے کا منصوبہ پیش کرنا پڑا۔
تصویر: Getty Images/G. Bergmann
میرکل کی ازدواجی زندگی
ان کو کون پہچان سکتا ہے؟ یہ انگیلا میرکل کے شوہر یوآخم زاؤر ہیں، جو برلن کی ہیمبولٹ یونیورسٹی میں طبیعیات اور تھیوریٹیکل کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔ ان دونوں کی شادی 1998ء میں ہوئی تھی۔ عوامی سطح پر کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یوآخم زاؤر دراصل جرمن چانسلر کے شوہر ہیں۔
تصویر: picture alliance/Infophoto
این ایس اے: میرکل کے فون کی بھی نگرانی
امریکی خفیہ ایجسنی این ایس اے کی طرف سے جرمن سیاستدانون کے ٹیلی فونز کی نگرانی کا اسکینڈل سامنا آیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ امریکا نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے فون بھی ریکارڈ کیے۔ اس اسکینڈل پر جرمنی اور امریکا کے دوستانہ تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ لیکن میرکل نے اس نازک وقت میں بھی انتہائی سمجھداری سے اپنے تحفظات واشنگٹن تک پہنچائے۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
تیسری مرتبہ چانسلر کا عہدہ
انگیلا میرکل کے قدامت پسند اتحاد نے سن دو ہزار تیرہ کے وفاقی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی۔ ان انتخابات میں ان کی سابقہ اتحادی فری ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست ہوئی اور وہ پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
یونان کا مالیاتی بحران
میرکل دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہیں لیکن یونان میں صورتحال کچھ مختلف ہے۔ سن 2014 میں جب یونان کا مالیاتی بحران شدید تر ہو چکا تھا تو جرمنی اور یونان کی ’پرانی دشمنی‘ کی جھلک بھی دیکھی گئی۔ لیکن میرکل اس وقت بھی اپنی ایمانداری اورصاف گوئی سے پیچھے نہ ہٹیں۔ بچتی کٹوتیوں اور مالیاتی اصلاحات کے مطالبات پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے یونانی عوام جرمنی سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/epa/S. Pantzartzi
جذباتی لمحہ
انگیلا میرکل زیادہ تر اپنے جذبات آشکار نہیں ہونے دیتی ہیں۔ تاہم دیگر جرمنوں کی طرح انگیلا میرکل بھی فٹ بال کی دلدادہ ہیں۔ جب جرمن قومی فٹ بال ٹیم نے برازیل منعقدہ عالمی کپ 2014ء کے فائنل میں کامیابی حاصل کی تو میرکل اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکیں۔ جرمن صدر بھی یہ میچ دیکھنے کی خاطر میرکل کے ساتھ ریو ڈی جینرو گئے تھے۔
تصویر: imago/Action Pictures
مہاجرین کا بحران ایک نیا چیلنج
حالیہ عرصے میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جرمنی پہنچ چکی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ میرکل کہتی ہیں کہ جرمنی اس بحران سے نمٹ سکتا ہے۔ لیکن جرمن عوام اس مخمصے میں ہیں کہ آیا کیا جرمنی واقعی طور پر اس بحران پر قابو پا سکتا ہے۔ ابھی اس کے نتائج آنا باقی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
پیرس حملے اور یورپی سکیورٹی
تیرہ نومر کو پیرس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے فرانس بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔ انگیلا میرکل نے اپنے ہمسایہ ملک کو یقین دلایا ہے کہ برلن حکومت ہر ممکن تعاون کرے گی۔ کوئی شک نہیں کہ پیرس حملوں کے بعد کی صورتحال میرکل کے دس سالہ دور اقتدار میں انہیں پیش آنے والے چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
چوتھی مرتبہ چانسلر
انگیلا میرکل نے بیس نومبر سن دو ہزار سولہ کو اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کے لیے تیار ہیں۔ انہیں اپنی پارٹی کی طرف سے مکمل حمایت حاصل رہی اور ان کا قدامت پسند اتحاد چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرا۔ یوں میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔