جرمنی: دائیں بازو کی انتہا پسندی اور جمہوریت دشمنی میں اضافہ
21 ستمبر 2023
جرمن معاشرے کی نبض کیا کہتی ہے؟ فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن اپنے طویل المدتی مطالعہ کے ساتھ اس سوال پر قریبی نظر رکھتی ہے۔ اس کے تازہ ترین نتائج نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
اشتہار
جرمنی میں ہر بارہ میں سے ایک شخص دائیں بازو کے انتہا پسند نظریے کا حامل ہے۔ یہ بات بیلے فیلڈ یونیورسٹی کی ایک ٹیم کی جانب سے فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔ فاؤنڈیش سیاسی طور پر جرمنی کی بائیں بازو کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ ہے۔
جرمن معاشرے کا نمائندہ مطالعہ 2002 میں شروع ہونے کے بعد سے ہر دو سال بعد کیا جاتا ہے۔ جنوری اور فروری 2023 کے تازہ ترین سروے میں 18 سے 90 سال کی عمر کے تقریبا دو ہزار افراد نے حصہ لیا۔ محققین کے مطابق اس بار آٹھ فیصد جواب دہندگان واضح طور پر دائیں بازو کی انتہا پسندانہ رجحان رکھتے ہیں۔ گزشتہ مطالعات میں یہ تعداد صرف دو تا تین فیصد رہتی رہی ہے۔
جرمنوں کی بڑھتی ہوئی تعداد آمریت کی حامی
اس وقت تمام عمر کے افراد میں سے پانچ تا سات فیصد افراد آمریت کی حمایت کرتے ہیں، ایسی آمریت جس میں واحد مضبوط جماعت اور ایک رہنما جرمنی میں حکمرانی کر رہا ہو۔ یہ نتیجہ طویل مدتی اوسط سے دوگنا ہے۔
بیلے فیلڈ یونیورسٹی میں 'انسٹی ٹیوٹ فار انٹر ڈسپلنری ریسرچ آن کنفلکٹ اینڈ وائلنس‘ کے سربراہ آندریاس زیک کی سربراہی میں تین محققین نے اس تحقیق کو 'دی ڈسٹینڈ مین اسٹریم' کے عنوان سے شائع کیا تھا۔ زیک نے نشاندہی کی کہ لوگ جتنا کم پیسہ کماتے ہیں، ان کا دائیں بازو کا انتہا پسندانہ رویہ اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا، ''ملک تیزی سے قومی بحرانوں کی لپیٹ میں آ رہا ہے۔ اور یہ لوگوں کو اس وقت زیادہ شدت سے متاثر کرتے ہیں جب وہ کم دولت مند ہوتے ہیں۔ سروے میں شامل افراد میں سے 48 فیصد نے خود کو بحرانوں سے ذاتی طور پر متاثر دیکھا جبکہ ایسی رائے رکھنے والے درمیانی آمدنی والے افراد میں سے 27.5 فیصد اور زیادہ آمدنی والے افراد میں سے صرف 14.5 فیصد تھے۔‘‘
نیو نازی گروپ کی جانب سے قتل کے واقعات کی تحقیقات
تصویر: picture-alliance/dpa
قاتل برسوں حکام کی نظروں سے اوجھل رہے
’نیشنل سوشلسٹ انڈر گراؤنڈ‘ گروپ ’این ایس یو‘ کے ارکان کئی سالوں تک جرمنی میں لوگوں کو قتل کرتے رہے ہیں۔ ان واقعات میں مبینہ طور پر اووے منڈلوس، اووے بوئنہارڈ اور بیاٹے چَیپے ملوث رہے۔ ان تینوں پر الزام ہے کہ انہوں نے آٹھ ترک نژاد، ایک یونانی نژاد اور ایک خاتون پولیس اہلکار کو غیر ملکیوں سے نفرت کی وجہ سے قتل کیا تھا۔ 2011ء تک یہ افراد حکومت کی نظروں سے اوجھل رہنے میں کامیاب رہے۔
تصویر: privat/dapd
بینک ڈکیتی کا ناکام واقعہ
دائیں بازو کے دہشت گرد گروپ کا سراغ نومبر 2011ء پر لگا تھا۔ اس روز اووے منڈلوس اور اووے بوئنہارڈ نے ایک بینک لوٹا تھا۔ یہ ان کی پہلی ناکام کارروائی تھی۔ پولیس اس گاڑی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی، جس پر یہ دونوں فرار ہوئے تھے۔ تفتیش کے مطابق ان دونوں نے گاڑی کو نذر آتش کرنے کے بعد خود کشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بیاٹے چَیپے نے خود کو حکام کے حوالے کر دیا
چیپے، اووے منڈلوس اور اووے بوئنہارڈ مشرقی جرمن شہر سویکاؤ میں رہائش پذیر تھے۔ خود کشی کے واقعے کے بعد اس گھر میں دھماکہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ثبوت مٹانے کے لیے انہوں نے گھر کو آگ لگائی تھی۔ چار روز بعد چیپے نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ مشتبہ خاتون دہشت گرد حراست میں ہے۔
تصویر: Getty Images
قتل کے واقعات سے پردہ اٹھا
سویکاؤ کے گھر کی راکھ سے حکام کو ایسا مواد حاصل ہوا، جس سے ’نیشنل سوشلسٹ انڈر گراؤنڈ‘ نامی اس دہشت گرد گروپ کے بارے میں پتہ چلا۔ یہ ایک 15 منٹ طویل ویڈیو تھی۔ اس میں 2000ء اور 2007ء کے درمیان ان تینوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کے مقامات اور نشانہ بننے والے افراد کو دیکھا جا سکتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’این ایس یو‘ کا اعترافِ جرم
شوقیہ طور پر بنائی جانے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ مشہور کارٹون کیریکٹر ’پنک پینتھر‘ غیر ملکیوں کے خلاف نفرت کا پیغام دے رہا ہے۔ اپنی گرفتاری سے قبل بیاٹے چیپے نے اس ویڈیو کی کاپیاں تقسیم بھی کی تھیں
تصویر: dapd
2011ء کا ناپسندید ترین لفظ ’ Dönermorde ‘
جرمنی میں ڈونر ایک مرغوب غذا ہے اور اس کا تعلق ترکی سے جوڑا جاتا ہے۔ 2011ء تک ذرائع ابلاغ کے کئی اداروں کی جانب سے ان واقعات کو Dönermorde یا ڈونر قتل کہا جاتا رہا۔ حالانکہ تب تک ان واقعات کا پس منظر اور مقاصد واضح نہیں تھے۔ یہ افواہیں تھیں کہ شاید مقتولین کا تعلق کسی منشیات فروش گروہ سے ہو۔ حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد Dönermorde سال کا ناپسندیدہ ترین لفظ قرار دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آہنی کیلوں سے بھرے بم کا حملہ
جون 2004ء میں کولون شہر میں ایک بم حملہ کیا گیا، جس میں آہنی کیلیں استعمال کی گئی تھیں۔ اس واقعے میں 22 افراد زخمی ہوئے تھے۔ اسی سال جون میں اس وقت کے جرمن وزیر داخلہ اوٹو شلی نے کہا تھا، ’’سلامتی کے اداروں کی اب تک کی تحقیقات کے مطابق یہ کوئی دہشت گردی نہیں بلکہ جرائم پیشہ گروہوں کی ایک کارروائی تھی حالانکہ اس واقعے کے پیچھے بھی نازی انڈر گراؤنڈ گروپ کا ہی ہاتھ تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
برلن میں مقتولین کے لیے دعائیہ تقریب
23 فروری 2012ء کو جرمن دارالحکومت برلن میں ایک خصوصی تقریب میں نازی گروپ کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی یاد تازہ کی گئی۔ اس تقریب میں ترکی سے تعلق رکھنے والے پھول فروش مرحوم انور سمسیک کی بیٹی سیمیہ سمسیک کی جذباتی تقریر نے سب کو غمزدہ کر دیا تھا۔ اس موقع پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے نیو نازی گروپ کی جانب سے کی جانے والی قتل کی وارداتوں سے متاثر ہونے والے خاندانوں سے معذرت کی تھی۔
تصویر: Bundesregierung/Kugler
متاثرہ خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار
چار نومبر 2011ء کو اس گروپ کے بے نقاب ہونے کے ٹھیک ایک سال بعد جرمنی کے متعدد شہروں میں دائیں بازو کی انتہا پسندی اور ان کا شکار ہونے والے افراد کے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ اس موقع پر منقعد ہونے والی تقریبات میں ان واقعات کی مکمل تفتیش اور حقائق کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تفتیش میں بد انتظامی
نیو نازی انڈر گراؤنڈ گروپ کے معاملے میں حکام اور ادارے بری طرح ناکام رہے۔ اس حوالے سے اہم فائلیں تلف کرنے کا واقعہ سامنے آیا۔ اطلاعات کے مطابق آئینی تحفظ کے جرمن ادارے نے نيشنل سوشلسٹ يا نازی انڈر گراؤنڈ گروپ کا راز فاش ہونے کے بعد اُن کی فائلوں کو مبینہ طور پر تلف کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ اس کے بعد اس محکمے کے سربراہ ہائنز فروم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
تصویر: Getty Images
مہمت کوباسک کی یادگار
ڈورٹمنڈ شہر کے میئر اولرش زیراؤ کے بقول ’ڈورٹمنڈ کا شمار جرمنی کے کثیر الثقافتی شہروں میں ہوتا ہے۔ یہاں دائیں بازو کی انتہا پسندی کی مخالفت بھی کھل کر کی جاتی ہے‘۔ یہ بات انہوں نے نازی گروپ کے ہاتھوں قتل ہونے والے مہمت کوباسک کی یادگار کا افتتاح کرتے ہوئے کہی۔ یہ یادگار مہمت کی اس دکان کے بہت ہی قریب قائم کی گئی ہے، جہاں چار اپریل 2006ء کو انہیں قتل کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مقدمے کی کارروائی اور صحافیوں کی مشکلات
اس مقدمے کی کارروائی کے حوالے سے ایک تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا، جب عدالتی کمرے میں غیر ملکی صحافیوں کو کوئی نشست نہیں مل سکی تھی۔ یہ کارروائی 17 اپریل کو شروع ہونا تھی تاہم عدالت نے صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے اداروں سے کہا کہ وہ ایک مرتبہ پھر سماعت کے دوران کمرے میں بیٹھنے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے درخواست دیں۔ ان معاملات کا تصفیہ ہو جانے کے بعد چھ مئی سے اس مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
12 تصاویر1 | 12
جرمنوں کا حکومت پر اعتماد کم ہو رہا ہے
یہ نتیجہ واضح طور پر حکومتی اداروں اور جمہوریت پر اعتماد کم ہونے کے رجحان کی عکاسی کرتا ہے، باوجود اس کے کہ ایک قابل ذکر اکثریت اس طرز حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔
تاہم، کم از کم 38 فیصد افراد سازشی نظریات پر یقین رکھتے ہیں، 33 فیصد عوامیت پسند خیالات رکھتے ہیں اور 29 فیصد نسلی قوم پرستی، آمرانہ اور باغیانہ سوچ پر مبنی رویے رکھتے ہیں۔
یہ سال 2020 اور 2021 میں کورونا وبا کے دوران کیے گئے سروے کے مقابلے میں تقریبا ایک تہائی کا اوسط اضافہ ہے۔ روایتی میڈیا کے بارے میں شکوک و شبہات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سروے میں شامل 32 فیصد افراد کا خیال ہے کہ میڈیا سیاست دانوں کے ساتھ ملی بھگت کر رہا ہے، جبکہ دو سال پہلے یہ شرح 24 فیصد تھی۔
کیا جمہوریت خطرے میں ہے؟
بہت سے لوگ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ایسی پیشرفتوں کو کس طرح روکا جا سکتا ہے اور ان کا رخ کیسے موڑا جا سکتا ہے۔ محقق زیک نے نشاندہی کی کہ ہم ایسے وقت میں رہ رہے ہیں جہاں بہتر فلاحی پالیسیاں صرف جزوی طور پر تنازعات، عدم اطمینان اور احتجاجوں کا حل فراہم کر پا رہی ہیں۔
زیک نے بتایا، ''بحران کا وقت وہ وقت ہوتا ہے جب لوگ سیاسی طور پر متحرک ہو جاتے ہیں اور نئے خیالات اپناتے ہیں، اور یہ خیالات مرکز سے دائیں طرف کے ہوتے ہیں۔ جب مرکزی دھارے یا مرکز میں ایسے لوگ، جو خود کو دائیں بازو کا انتہا پسند نہیں سمجھتے یا اس طرح منظم نہیں ہوتے، معاشرے کے دائیں بازو کے انتہا پسند گروہوں کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔‘‘
اشتہار
سازشی نظریات اور جمہوریت مخالف گروہ میں اضافہ کورونا وبا کے باعث
زیک نے 2022 کے لائپزگ یونیورسٹی میں کی گئی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس رجحان کا اندازہ لگانا کتنا مشکل ہے۔ اس تحقیق کے مطابق کورنا وبا کے دوسرے سال میں دائیں بازو کے انتہا پسندانہ رویوں میں کمی آئی۔ تاہم اس کے باوجود جمہوریت کے بارے میں عدم اطمینان بہت زیادہ تھا اور بہت سے غلط تعصبات وسیع پیمانے پر موجود تھے۔
زیک نے اس دوران 'رائش برگر گروہوں‘ کے یکجا ہونے کے بارے میں کہا، ''آج ہم جانتے ہیں کہ کتنے دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے دیگر دائیں بازو کے بنیاد پرست، سازشی اور جمہوریت مخالف گروہوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوشش کی۔‘‘
اس تحریک کے حامیوں کا خیال ہے کہ 1871 سے شروع ہونے والی جرمن سلطنت کی سرحدیں اب بھی نافذ العمل ہیں اور وہ موجودہ جرمن ریاست اور اس کے جمہوری ڈھانچے کو مسترد کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان گروہوں نے دہشت گرد سیل بھی بنا رکھے ہیں۔
'نیشنل سوشلزم معاشرے کے مرکز میں‘
اسی پس منظر میں زیک اس مطالعے کو جرمنی میں 'یاد داشت کی ثقافت‘ کے ایک حصے کے طور پر دیکھتے ہیں، جس میں براہ راست 1933-1945 کی نازی آمریت کا حوالہ ہے۔
انہوں نے کہا، "نیشنل سوشلزم معاشرے کے مرکز سے آیا تھا اور اس کی حمایت کی گئی تھی، بھلے ہی فسطائی معاشرے کے نظریے اور نفاذ بشمول پروپیگنڈا، تحریک اور ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کو نازی جماعت نے تیار اور نافذ کیا تھا۔‘‘
حالیہ مطالعے میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ معاشرے کو ان بہت سے بحرانوں سے کیسے نمٹنا چاہیے جن کا اسے سامنا ہے۔ جواب میں 53 فیصد نے زیادہ قومی پالیسیاں اختیار کرنے کی حمایت کی۔ انہوں نے بیرونی دنیا سے الگ تھلگ رہنے کا مطالبہ کیا اور بحرانوں سے نمٹنے کے لیے جرمن اقدار، خوبیوں اور فرائض کو ضروری قرار دیا۔