1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخجرمنی

جرمنی: داغدار ماضی سے عالمی قوت تک کا سفر

2 اکتوبر 2020

منقسم جرمنی کو متحد ہوئے 30 سال گزر گئے۔ اس دوران جرمنی نے جو ترقی کی، اس کی مثال نہیں ملتی۔ دیوار برلن گرنے کے چند سالوں بعد سے اب تک میں نے جرمنی میں خوشگوار تبدیلیوں کا جو تجربہ کیا وہ میں قارئین کی نذر کرتی ہوں۔

Deutsche Welle Urdu Kishwar Mustafa
تصویر: DW/P. Henriksen

'آپ کا تعلق کس ملک سے ہے؟‘ میں نے جواب دیا پاکستان سے۔ ''اچھا آپ پاکستانی خاتون کی حیثیت سے اعلیٰ تعیلم حاصل کرنے کے لیے اکیلی جرمنی کیسے آ گئیں، پاکستان میں تو عورتیں تعلیم حاصل نہیں کرتیں، نہ ہی اکیلے کہیں جا سکتی ہیں۔ آپ یہاں جرمن یونیورسٹی میں۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟‘‘

جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد جب میں برلن کی ہمبولڈ یونیورسٹی ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے آئی تو اُس وقت مجھے یونیورسٹی سے لے کر عوامی مقامات پر بھی ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

دوسری جانب میں اپنے ذہن میں جرمن یونیورسٹی کا جو تصور لے کر آئی تھی، وہ اُس سے بالکل مختلف تھا جیسا کہ میں نے ہمبولڈ یونیورسٹی کو حقیقی معنوں میں پایا۔

جرمن یونیورسٹی میں پروفیسر سے ملاقات

ہمبولڈ یونیورسٹی کی مرکزی عمارت برلن کی شہ رگ سمجھی جانے والی شاہراہ 'اُنٹر ڈین لنڈن‘ پر واقع ہے۔ لیکن اس کے مختلف شعبوں کی عمارتیں برلن کے اُس حصے کے مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی تھیں، جو جرمنی کے دوبارہ اتحاد سے پہلے مشرقی جرمنی یعنی جی ڈی آر میں قائم تھیں۔

مجھے اپنی تحقیق کے سلسلے میں اپنے 'ڈاکٹر فادر‘ جو ہمبولڈ یونیورسٹی کے شعبہ ایشیا و افریقہ سے منسلک بہت سینیئر پروفیسر تھے، سے ملنا تھا۔ جس عمارت میں اُن کا دفتر تھا وہاں پہنچنے پر مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ جرمنی ہے۔

انتہائی مخدوش حالت میں زیادہ تر لکڑی کی بنی ہوئی بہت پرانی بلڈنگ جس کی چوتھی منزل پر میرے پروفیسر کا دفتر تھا، وہاں تک پہنچنے کے لیے لفٹ تو کجا سیڑھیاں بھی بوسیدہ لکڑیوں سے بنی ہوئی تھیں، جن پر پڑنے والے ہر قدم کی بازگشت سنائی دیتی تھی۔

میں نے جرمنوں کی وقت کی پابندی کے بارے میں سن رکھا تھا اس لیے میں مقررہ وقت سے پہلے ہی وہاں پہنچ گئی۔ سیڑھیوں سے چوتھی منزل تک پہنچنے کے لیے ہر منزل پر لائٹ کے سوئچ پر ہاتھ مارنا پڑتا تھا ورنہ اندھیرا ایسا کہ کچھ سجھائی نہ دے۔

چوتھی منزل پر اپنے پروفیسر کے کمرے تک پہنچ کر میں نے گھڑی پر نظر ڈالی تو پتا چلا کہ ہماری ملاقات کے طے شدہ وقت میں ابھی دس منٹ باقی ہیں۔ پروفیسر کے کمرے کے دروازے کے سامنے ایک لکڑی کی بنچ تھی۔ میں وہاں بیٹھ کر اُس پورے فلور کا، ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لینے لگی۔

سردیوں کے دن تھے۔ میں نے کھڑکی کھولے بغیر اُس کے ملگجے شیشے سے باہر جھانکا تو ایک انتہائی خوبصورت منظر نظر آیا۔ یہ عمارت دراصل برلن کے ایک تاریخی مقام فریڈرش اشٹراسے کے اُس حصے میں واقع تھی جو دریائے شپرے پر واقع تھا۔

چوتھی منزل سے نیچے شپرے دریا کی طرف نگاہ ڈالی تو یوں لگا جیسے کسی تاریخی فلم کا کوئی سین ہے جو اپنے اندر بے پناہ دلچسپ واقعات کی یادیں سمیٹے ہوئے ہے۔ دس منٹ گزرے ہی تھے کہ مجھے بڑے اور بھاری بھرکم قدموں کی آواز سنائی دی۔

چند لمحوں میں ایک معمر، قدآور، وجیہ شخص میرے سامنے کھڑا تھا۔ جس کے ماتھے کے بل،  تاریخ کی کسی کتاب کے ابواب لگتے تھے، موٹے شیشوں والی عینک، کوٹ اور ٹائی بھی کافی پرانی نظر آ رہی تھی مگر بڑے سلیقے سے زیب تن تھی اور دائیں ہاتھ میں ایک چھوٹے بکسہ نما بریف کیس اور بائیں ہاتھ میں اخبار کے ساتھ ساتھ ایک بیکری کا تھیلا جس میں سینڈوچ کی طرح کا کوئی لنچ تھا۔

میرے پروفیسر نے پہلے جرمن زبان میں مجھے سلام کیا اور میری طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ میں نے بھی جرمن میں ہی سلام کا جواب دیا اور ان کے بھاری، سخت  اور کسی مزدور کی مانند ہاتھ میں اپنا چھوٹا سا ہاتھ دے دیا۔ پروفیسر نے خوش آمدید کرتے ہوئے اپنے کمرے کا لاک کھولا اور مجھے اندر بلایا۔

اپنا بریف کیس اور لنچ کا تھیلا میز پر رکھا اور مجھے بیٹھنے کو کہا، میں تابعداری سے کرسی پر بیٹھ گئی اور وہ خود تیزی سے کمرے سے نکل کر دائیں طرف کوریڈور میں لائن سے بنے چھوٹے چھوٹے کمروں میں سے ایک میں چلے گئے۔

چند لمحوں بعد واپس آکر مجھ سے پوچھنے لگے، '' آپ کافی پییں گی یا چائے؟‘‘  میں حیرانی سے اُن کی طرف دیکھ رہی تھی مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایک اتنا سینیئر پروفیسر خود مجھ سے چائے  کا  پوچھ رہا ہے کوئی سکریٹری نہیں کوئی آفس بوائے نہیں۔

میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ میں چائے، کافی کچھ نہیں پیتی۔ وہ ہنس کر بولے جرمنی کی سردی میں رہنا ہے تو آپ کو کچھ تو پبینا ہوگا۔ میں نے کہا جب عادی ہو جاؤں گی تو پی لیا کروں گی۔ اتنے میں وہ خود کچن کی طرف گئے اور تھوڑی دیر میں اپنا کافی کا کپ لے کر آئے اور میرے سامنے اپنی میز پر رکھتے ہوئے اپنی کرسی پر بیٹھے۔

انہوں نے اپنا بریف کیس کھولا، اُس میں سے ایک سیب نکالا اور میز پر رکھ دیا۔ میں ان کی سادگی اور متانت پر دنگ تھی۔ میں نے گفتگو شروع کرنے کا بہانہ تلاش کرتے ہوئے کہا، ''جرمن باشندے سیب بہت شوق سے کھاتے ہیں نا؟‘‘ میرے اس بیان پر میرے پروفیسر نے انتہائی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ''ہاں اگر سیب دستیاب ہو۔‘‘

ایک جھٹکا

میرے ڈاکٹر فادر کا یہ جملہ میرے دماغ کو ایک جھٹکا دینے کا سبب بنا جس کے بعد میں جرمنی اور جرمنوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے تجسس میں اُن سے ایک کے بعد ایک سوال کرتی گئی اور ان کا ہر جواب میرے لیے جرمن تاریخ کے ایک نئے باب کا سر ورق تھا۔

میری اپنے جرمن پرفیسر سے یہ پہلی ملاقات تھی جس کے بعد کتابوں کا سہارا لیے بغیر مجھے جرمنی کی موجودہ تاریخ کی حقیقی معلومات حاصل ہوئیں جو بہت دلچسپ تھیں۔ میری رہائش اُس وقت برلن کے مغربی حصے میں قائم ایک اسٹوڈنٹس ہوسٹل میں تھی۔ اُس علاقے میں جو اس وقت برلن کا قلب مانا جاتا ہے اور وہاں پر اس وقت دنیا کے جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ سنیما گھروں کا مرکز قائم ہے۔ اسے 'سونی سینٹر‘ کہا جاتا ہے۔

اپنے ہوسٹل سے ہمبولڈ یونیورسٹی میں اپنے پروفیسر سے ملاقات اور لائبریری جا کر مطالعہ کرنے کے لیے مجھے زیر زمین ٹرین یا بس لینا پڑتی تھی۔ میں بس کے سفر کو ترجیح دیتی تھی۔ ایک روز میں ایک ایسی بس پر سوار ہو گئی جو مسافروں کو برلن کے مغربی حصے سے مشرقی برلن کے ایک خاص مقام تک پہنچا کر وہاں اپنا سفر ختم کر دیتی تھی۔ وہ مقام تھا آلیکسزانڈر پلاٹس۔

وہاں پہنچنے تک بس تقریباً خالی ہو جاتی تھی اور کالے بالوں اور بھوری رنگت والے مسافر تو شاذ و نادر نظر آتے تھے۔ ایک روز میرے پروفیسر نے  تنبیہ کی کہ میں اکیلے اُس علاقے میں نہ آیا کروں۔ میں نے پوچھا کیوں؟ انہوں نے کہا مشرقی جرمنی میں اجنبی نظر آنے والے افراد کو مقامی باشندے پسند نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا، ''سیاسیات کی طالبعلم کی حیثیت سے تمہیں نیو نازیوں کا تو پتا ہوگا۔ یہ غیر جرمنوں پر حملہ کرتے ہیں۔ اکثر زدو کوب کی وارداتیں ہوتی ہیں۔ غیر ضروری طور پر شام کے بعد اس طرف نا آیا کرو۔‘‘

نازی دور کے جرمنی کے بارے میں تو میں نے یورپی تاریخ میں کچھ تفصیلات پڑھ رکھی تھیں لیکن زمینی حقائق کا اندازہ اب ہو رہا تھا۔ جیسے جیسے میرے تھیسس پر کام آگے بڑھنے لگا ویسے ویسے میرے پروفیسر نے مجھے ہمبولڈ یونیورسٹی سے نکل کر مغربی برلن میں قائم 'فری یونیورسٹی‘ چلے جانے کا سنجیدگی سے مشورہ دینا شروع کر دیا۔

اس کی وجہ پوچھنے پر مجھے انہوں نے ان بہت سے مسائل میں سے صرف ایک یا دو کی نشاندہی کی جن کا وہ خود بھی شکار تھے اور مجھے ان سے بچانا چاہتے تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے بتایا کہ مشرقی اور مغربی اداروں، یہاں تک کہ تعلیمی اداروں میں بھی یکساں قابلیت والے افراد کو یکساں تنخواہیں نہیں ملتیں۔

جرمنی کے دوبارہ اتحاد کو تیس برس ہو چکے ہیںتصویر: Getty Images

مشرقی جرمن کالج اور یونیورسٹی کی سند کو مغربی یونیورسٹیوں میں مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جرمنی سے باہر، خاص طور پر امریکا میں مغربی جرمن یونیورسٹیوں کی ڈگریوں کی اہمیت و قدر مشرقی یونیورسٹیوں سے کہیں زیادہ ہے اور جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد مغربی جرمنی میں روزگار کے مواقع مشرقی جرمنی کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔

میں نے اپنے پروفیسر کے مشورے اور ہدایات پر عمل کیا اور ہمبولڈ یونیورسٹی چھوڑ کر مغربی برلن میں قائم فری یونیورسٹی کے ' اوٹو زور انسٹیٹیوٹ‘ میں داخلہ لیا اور وہاں اپنی تعیلم و تحقیق کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا۔

فری یونیورسٹی انتہائی پُر فضا مقام میں ایک وسیع علاقے پر پھیلی ہوئی ہے۔ تمام تر شعبوں میں جرمن اور غیر ملکی طالبعلموں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی ماہرین تعلیم، پروفیسرز، محققین وغیرہ کے ساتھ کام کرنے کا ایک بالکل علیحدہ ماحول پایا۔

منقسم جرمن قوم کا مثالی اتحاد

جیسے جیسے میرا واسطہ مشرقی اور مغربی جرمن باشندوں سے پڑتا رہا ویسے ویسے مجھے اندازہ ہوتا گیا کہ جرمنی کی تقسیم نے جرمن قوم کو ذہنی اور کسی حد تک لاشعوری طور پر بانٹ دیا ہے۔ یہاں تک کہ مغربی جرمنی سے تعلق رکھنے والے جرمن باشندے مشرقی جرمنی کے باشندوں کے ساتھ خود کو وابستہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔

اطراف کے جرمنوں کی عادات، مزاج اور سوچ میں بھی کافی فرق محسوس ہوتا تھا۔ ایک بات مگر قابل تعریف ہے وہ یہ کہ جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد وفاقی حکومت نے برلن کے مشرقی علاقوں کی بہت تیزی سے تعمیر نو کی اور چند برسوں کے اندر وہ بہت بڑا فرق جو جرمنی کے دوبارہ اتحاد سے پہلے پایا جاتا تھا مٹنے لگا۔

برلن کی سڑکیں، دوکانیں، شاپنگ سینٹرز، اسکول، دفتری عمارتیں، سنیما گھر غرضیکہ ہر طرح کی عمارتوں کی تعمیر اور تزئین و آرائش سے وہ فرق مٹتا چلا گیا۔ برلن جرمنی کے دارالحکومت کی حیثیت سے بہت پُر کشش اور پُر رونق ہوگیا۔

چند سالوں کے اندر مشرقی برلن کے ان علاقوں میں جانے سے بھی خوف محسوس نہیں ہونے لگا جہاں کبھی جانے کا تصور بھی خوفناک ہوتا تھا۔ غیر ملکیوں پر نیو نازیوں کے حملوں میں بھی کسی حد تک کمی آئی۔ یہ اور بات کہ اس وقت جرمنی میں دائیں بازو کی انتہا پسندی اور اسلام مخالف سیاسی قوتیں زور پکڑ  گئی ہیں۔

زندہ قوم کی نشانیاں

جرمنی نے انیسیوں صدی میں دنیا کوایک طرف  بڑے بڑے فلسفیوں کے خیالات، ان کی فکری پرواز ان کے علم و دانش کی گہرائی سے نوازا وہاں عالمی تاریخ کے چند اہم ترین واقعات میں اس کا کردار غیر معمولی رہا ہے۔

نازی جرمن دور، دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ جرمنی کی شکست ۔ یورپ کے قلب میں واقع اس ملک کے دو لخت ہونے کا واقعہ، دو متضاد سیاسی نظام کے تحت ایک قوم کے دو حصوں میں بٹ کر رہ جانا اس سب کے باوجود محض تیس سال کے اندر جرمنی نا صرف دوبارہ متحد ہوا بلکہ اس نے ہر شعبے میں جو ترقی کی ہے اُس کی مثال نہیں ملتی۔

آج جرمنی کو یورپ کی اقتصادی شہ رگ مانا جاتا ہے۔ مشرقی اور مغربی جرمنی کو ترقی اور اقتصادی طور پر بالکل ایک سطح پر لانے میں ابھی کچھ اور وقت لگ جائے گا لیکن دیوار برلن کے گرنے اور جرمنی کے دوبارہ اتحاد نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر کوئی قوم محنت، ایمانداری، لگن، دیانتداری اور بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرتے ہوئے اپنے درمیان پائے جانے والی دیوار، فاصلے اور غلط فہمیوں کو مٹانا چاہے تو وہ یہ کر سکتی ہے۔

اب مجھ سے کوئی نہیں پوچھتا کہ میرا تعلق کس ملک سے ہے بلکہ میری 9 سالہ بیٹی اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے بھی خود کو جرمن کہتی اور سمجھتی ہے۔

اُس سے کوئی نہیں پوچھتا کہ اس کا یا اُس کے والدین کا آبائی وطن کون سا ہے یا وہ کہاں سے آئے ہیں۔ اسے وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو دیگر جرمن بچوں کو میسر ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں