جرمنی: دوسری عالمی جنگ کے دور کا پانچ کوئنٹل کا بم دریافت
7 دسمبر 2020
جرمنی کے شہر فرینکفرٹ کے پاس دوسری عالمی جنگ کے دور کا ایک 500 کلو گرام وزنی بم دریافت ہوا جس کی وجہ سے آس کے پاس کے 13 ہزار افراد کو اپنے گھروں کو چھوڑ کر دور جانے کو کہا گيا تاکہ بم کو ناکارہ بنایا جا سکے۔
اشتہار
جرمنی کے صنعتی شہر فرینکفرٹ کے ضلع گلوس میں اتوار کے روز ہزاروں افراد کو ان کے گھروں سے نکل جانے کو کہا گيا تاکہ دوسری عالمی جنگ کے دور کا پانچ سوگلوگرام وزنی برطانوی ساختہ بم کو بحفاظت وہاں سے ہٹایا جا سکے۔ حکام کی ان ہدایات کے بعد صبح آٹھ بجے کے بعد شہر کے مرکزی علاقے کے قریب بسنے والے مقامی رہائشی اپنے گھروں سے نکل کر باہر جانے پر مجبور تھے۔
جرمنی میں دوسری عالمی جنگ کے دور کے بم مسلسل دریافت ہوتے رہے ہیں۔ اسی برس اکتوبر میں پولینڈ اور جرمنی کی سرحد پر بھی ایک بہت بڑا بم ملا تھا جسے 'ارتھ کویک بم' یعنی زلزلہ کی طرح زمین کو دہلا دینے والا بم کہا جاتا ہے۔
اتوار کے روز اس انخلا کے عمل سے جہاں بہت سے ملازم پیشہ رہائشی متاثر ہوئے وہیں سرکاری محکمہ ریل 'ڈوئچے باہن' میں کام کرنے والے ملازمین کے مکانات بھی اس کی زد میں آئے۔ کمپنی نے متنبہ کیا تھا کہ اس کی وجہ سے صبح گیارہ بجے سے شام چھ بجے تک طویل راستے سمیت مقامی ٹرین سروسز کی آمد و رفت میں خلل پڑ سکتا ہے۔
جن مقامی افراد کے پاس متبادل رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا انہیں اتوار کی شام تک مقامی نمائشی ہال میں منتقل ہونے کو کہا گيا تھا۔
مردوں کی باقیات کی تلاش
03:46
بم کو ناکارہ بنانے میں گھنٹوں لگ سکتے ہیں
حکام کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے چونکہ ’سوشل ڈسٹینسنگ‘ یا سماجی فاصلے جیسے اصول و ضوابط کار فرماں ہیں اس لیے بم کو ناکارہ بنانے کے عمل میں کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ گزشتہ جمعرات کو یہ بم ایک تعمیری سائیٹ میں پایا گیا تھا۔
مقامی آگ بجھانے والے عملے کا کہنا تھا کہ بم کا سائز اور ڈیزائن کچھ اس طرح کا ہے کہ اس سے ہونے والا دھماکا بڑی تباہی کا باعث ہوگا اور یہ زندگی کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ حکام نے اس کے آس پاس سات سو میٹر کے دائرے کو مکمل طور پر خالی کروا لیا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران اتحادی افواج نے فرینکفرٹ کو اپنی بمباری سے مسلسل نشانہ بنایا تھا، جس کی وجہ سے پانچ ہزار سے بھی زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے اور یہ تاریخی شہر پوری طرح سے تباہ ہوگیا تھا۔ اس جنگ کے خاتمے کے تقریبا 75 برسوں بعد بھی زندہ بموں اور دیگر بارودی اسلحوں کا ملنا عام بات ہے۔
اسی برس جون میں فرینکفرٹ کے کنونشن سینٹر میں بھی ایک پانچ کوئنٹل کا بم ملا تھا۔ جولائی 2019 ء میں شہر میں یورپیئن سینٹرل بینک کے ہیڈکوارٹر کے پاس بھی ایک بہت بڑا بم دریافت ہوا تھا۔ اس کی وجہ سے 16500 مقامی افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کرنا پڑا تھا۔
ستمبر 2017 ء میں اسی شہر میں دو ٹن کا ایک بم دریافت ہوا تھا جس کو محفوظ طریقے سے ناکارہ بنانے کے لیے 65 ہزار افراد کو دیگر محفوظ مقام پر منتقل کرنا پڑا تھا۔
ص ز/ ک م (اے ایف پی، ڈی پی اے)
دوسری عالمی جنگ کے 75 برس بعد، برلن میں موجود یادگاریں
کئی برس تک کے تشدد اور تباہی کے بعد، دوسری عالمی جنگ 75 برس قبل ختم ہوئی تھی۔ جرمن دارلحکومت برلن میں موجود بہت سی یادگاریں تاریخی واقعات کا نشان ہیں یا پھر جنگ کا شکار ہونے والوں کی یاد تازہ کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/Y. Tang
رائش ٹاگ پارلیمان کی عمارت
30 اپریل 1945ء کو دو سوویت فوجیوں نے برلن میں رائش ٹاگ پارلیمان کی عمارت پر سُرخ پرچم لہرایا تھا۔ حالانکہ یہ بات اب معلوم ہے کہ یہ تصویر اصل واقعے کے دو روز بعد اسے دہرا کر بنائی گئی تھی، پھر بھی یہ 20ویں صدی کی معروف ترین تصاویر میں سے ایک ہے جو ہٹلر کے خلاف فتح، نازی جماعت کے تباہی اور دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کی علامت ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن - روسی عجائب گھر
آٹھ مئی 1945ء کو برلن کے علاقے کارل ہورسٹ میں واقع آفیسرز میس میں جرمن فوج نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ جرمن روسی عجائب گھر میں یہ دستاویز موجود ہے، جسے انگریزی، روسی اور جرمن زبانوں میں تیار کیا گیا تھا۔ اس میوزیم میں نازی حکومت کی طرف سے سوویت یونین کے خلاف جنگ شروع کرنے سے متعلق تفصیلات موجود ہیں جو 25 ملین افراد کی زندگی لے گئی۔
تصویر: picture-alliance/ZB
اتحادی عجائب گھر
مغربی اتحادی یعنی امریکا، برطانیہ اور فرانس جولائی 1945 میں شہر کے مغربی حصوں پر قبضہ کرنے سے قبل برلن میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ امریکی فورسز کا مرکز زیلنڈورف ڈسٹرکٹ تھا۔ سابق تھیئٹر سنیما کی عمارت اب الائیڈ میوزیم کا حصہ ہے۔ اس میوزیم میں جنگ کے بعد کے برلن کے بارے میں معلومات موجود ہیں جن میں 1948ء کا ایئرلِفٹ اور 1994ء میں امریکی فورسز کے انخلا تک کے واقعات شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/akg-images/D. E. Hoppe
سوویت وار میموریل
ایک سوویت فوجی بچائے گئے ایک بچے کو اپنے بازو میں اٹھائے ہوئے ہے جبکہ اس کے دوسرے ہاتھ میں تلوار ہے جس کا رُخ نیچے کی جانب ہے۔ یہ بہت بڑا یادگاری مجسمہ ٹریپٹو میں موجود سوویت فوجی میموریل میں نصب ہے۔ یہ ملٹری قبرستان ہے جس میں وہ سات ہزار سوویت فوجی دفن ہیں جو 1945ء میں برلن میں ہونے والی لڑائی میں مارے گئے۔
تصویر: picture-alliance/360-Berlin/J. Knappe
دولت مشترکہ، جنگی قبرستان
برلن کے علاقے ہیئر اسٹراسے میں واقع قبرستان میں ایئرفورس کے قریب 3600 فوجی دفن ہیں۔ اسے 1995ء اور 1957ء کے دوران برطانیہ اور دولت مشترکہ کی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کے یادگاری قبرستان میں بدل دیا گیا۔ یہ آج بھی برطانوی تاج کی خصوصی نگرانی میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images/Schoening Berlin
جرمن مزاحمت کی یادگار
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے سے قریب ایک برس قبل 20 جون 1944ء کو جرمن افسران کے ایک گروپ نے ہٹلر کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ مگر یہ کوشش ناکام ہو گئی اور اس میں ملوث افسران کو سزائے موت دے دی گئی۔ جرمن مزاحمت کی یادگار اس مرکز میں نازی حکومت کے خاتمے کی کوشش کرنے والے ان افسران کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔
برلن کی نیدرکرشن اسٹراسے پر موجود ’ٹوپوگرافی آف ٹیرر‘ پر ہر سال ایک ملین سے زائد افراد آتے ہیں۔ یہ برلن میں کسی بھی یادگاری مقام پر سالانہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔ 1933ء سے 1945ء تک یہ خفیہ ریاستی پولیس اور ایس ایس کا ہیڈکوارٹر رہا تھا۔ دوسرے لفظوں میں وہ مقام ہے جہاں نازی حکومت کے منصوبے بنائے اور ان پر عمل کیا جاتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
یورپ میں قتل ہونے والے یہودیوں کی یادگار
لہروں کی شکل میں تعمیر کیے گئے یہ 2711 ستون، ان قریب 6.3 ملین یورپی یہودیوں کی یادگار ہیں جنہیں نازی دور حکومت میں قتل کیا گیا۔ ہولوکاسٹ میوزیم کے بالکل سامنے موجود یہ مقام نازی اذیتی کیمپوں میں یہودیوں پر ڈھائے جانے والے منظم ظلم وستم کی یاد تازہ کرتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Büttner
کائزر وِلہیلم میموریل چرچ
برائٹس شیڈپلاٹز پر واقع کائزر وِلہیلم میموریل چرچ کو 1943ء میں ہونے والی بمباری میں شدید نقصان پہنچا تھا۔ جنگ کے بعد کے سالوں میں جب اس کی دوبارہ تعمیر اور تزئین کی جا رہی تھی تو برلن کے عوام نے اس پر احتجاج کیا تھا۔ جس کے بعد 71 میٹر اونچے مینار کی باقیات کو محفوظ کر لیا گیا تھا۔ یہ جنگ اور تباہی کے خلاف اور امن اور مفاہمت کے حق میں ایک انتہائی واضح یادگار ہے۔