جرمنی ’دہشت گردوں‘ کا معاون ہے، ترک میڈیا
11 جون 2016اس اخبار کے مطابق پہلے تو جرمن پارلیمان نے سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کو ’نسل کشی‘ قرار دینے کی منظوری دی اور پھر استنبول میں یہ دہشت گردانہ کارروائی کی۔ اس اخبار کے مطابق جرمن پارلیمان کے منظوری کے بعد ترک ردعمل کی وجہ سے جرمنی نے یہ حملہ کیا، جس میں گیارہ افراد ہلاک ہو گئے۔
اس اخبار کے مرکزی صفحے پر دہشت گردانہ حملے کی تصویر کے ساتھ یہ شہ سرخی تھی، ’جرمن کارنامہ‘۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ استنبول میں اس دہشت گردانہ کارروائی کے ذریعے جرمنی نے ترکی کی توجہ آرمینیائی معاملے سے ہٹانے کی کوشش کی۔
رواں ہفتے کے آغاز پر ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی جانب سے جرمن قانون سازوں پر تنقید کی گئی تھی اور ایردوآن نے ان جرمن قانون سازوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا تھا، جو ترک نژاد ہیں۔ ایردوآن کا کہنا تھا کہ یہ عناصر ترکی میں دہشت گردوں کی معاونت کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ جرمنی وہ 26واں ملک ہے، جس نے ترک عثمانیہ سلطنت میں سن 1915 میں آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کو نسل کسی قرار دیا ہے۔ جب کہ ترکی اسے قتل عام تو قرار دیتا ہے، تاہم نسل کشی نہیں مانتا۔
ادھر جرمنی میں ترک برادری کی نمائندہ تنظیم TGD کے سربراہ گیوکے سوفواولو کا کہنا ہے کہ اس طرز کی اخباری خبریں اشتعال انگیزی اور سراسیمگی کو ہوا دینے کی کوشش ہیں، جن کا مقصد ایردوآن کے خودساختہ قوم پرست ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق ترک اخبارات کی ایسی خبروں کو یکسر رد کر دیا جانا ضروری ہے۔
سوفواولو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’یہ رپورٹ اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ ترکی میں میڈیا اب کسی صورت آزاد نہیں رہا۔ گیونیس اس سے قبل بھی اسی طرز کی رپورٹنگ کرتا رہا ہے، جب کہ اس معاملے میں دیگر ترک اخبارات بھی پیچھے نہیں۔‘‘