جرمنی: دہشت گردی کے متاثرین کے لیے زر تلافی پہلے سے تین گنا
21 جولائی 2018
جرمن حکومت نے دہشت گردانہ حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے پسماندگان کے لیے زر تلافی تین گنا کر دیا ہے۔ اس فیصلے کا اطلاق ماضی میں ہوئے ایسے حملوں کے ہلاک شدگان کے اہل خانہ پر بھی ہو گا، جنہیں ایسی ادائیگیاں کی جا چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
اشتہار
جرمن حکومت نے کہا ہے کہ دہشت گردانہ حملوں میں ہلاک ہونے والے ہر فرد کے گھر والوں کو تیس تیس ہزار یورو دیے جائیں گے۔ پہلے وفاقی حکومت کی طرف سے ایسے متاثرین کے اہل خانہ کو یک مشت دس ہزار یورو زر تلافی دیا جاتا تھا۔
جرمن کمشنر برائے متاثرین ایڈگر فرانکے نے جرمن پارلیمان کے سال دو ہزار اٹھارہ کے بجٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ متاثرین کے بہن بھائیوں کو پانچ ہزار یورو کے بجائے پندرہ ہزار یورو کا معاوضہ دیا جائے گا۔
ایک جرمن روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے فرانکے نے کہا کہ یہ رقوم سن دو ہزار سولہ میں برلن میں ہوئے دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والے بارہ افراد کے لواحقین کو بھی فراہم کی جائیں گی اور ان شہریوں کے پسماندگان کو بھی، جو نیو نازی دہشت گرد گروہ ’این ایس یو‘ کے حملوں میں ہلاک ہوئے تھے۔
فرانکے نے مزید کہا کہ ملک سے باہر موجود جرمن شہری بھی اگر کسی دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہو جاتے ہیں، تو ان کے اہل خانہ بھی اس زر تلافی کے حق دار ہوں گے۔
فرانکے کے مطابق تقریباﹰ تین سو گھرانوں کو یہ رقوم فراہم کی جائیں گی اور مستقبل میں اگر کسی دہشت گردانہ حملے میں کسی بچے کی ماں یا اس کا باپ ہلاک ہو جاتا ہے، تو اس کی امداد کے لیے فی کس 45 ہزار یورو اضافی بھی دیے جائیں گے۔
سن دو ہزار اٹھارہ کے بجٹ میں اس مد میں آٹھ ملین یورو مختص کیے گئے ہیں، جو گزشتہ سال کے بجٹ میں اسی مد میں مختص کی گئی رقوم کے مقابلے میں 6.6 ملین زیادہ ہیں۔
جرمنی میں کمشنر برائے متاثرین دہشت گردی کا عہدہ سن دو ہزار سات میں تخلیق کیا گیا تھا۔ رواں برس کُرٹ بیک کی جگہ اس عہدے پر فائز ہونے والے ایڈگر فرانکے نے مزید کہا، ’’جرمنی میں دہشت گردی کے متاثرین یا ان کے اہل خانہ کو بطور زرتلافی پہلے بھی رقوم دی جاتی تھیں لیکن وہ دہشت گردانہ حملوں میں مارے جانے والے افراد کے لواحقین کے لیے مناسب نہیں تھیں۔‘‘
فرانکے کے بقول دیگر ممالک کے مقابلے میں جرمنی میں متاثرین کے رشتہ داروں کو دی جانے والی یہ امداد کافی کم تھی، اس لیے وفاقی حکومت نے اس میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ جرمن دارالحکومت برلن کی ایک کرسمس مارکیٹ پر کیے گئے دہشت گردانہ سے قبل جرمنی میں ایسا کوئی بڑا حملہ نہیں ہوا تھا، جیسے کہ قبل ازیں فرانس، سپین اور برطانیہ میں ہو چکے تھے۔
فرانکے کے مطابق یہی وجہ تھی کہ برلن حکومت اس تناظر میں اپنے طور پر زیادہ تیار نہیں تھی، اب لیکن متاثرین کے لواحقین اور پسماندگان کے لیے صورت حال زر تلافی کی حد تک کافی بہتر بنا دی گئی ہے۔
ع ب / م م / خبر رساں ادارے
جرمنی میں دہشت گردی کے منصوبے، جو ناکام بنا دیے گئے
گزشتہ اٹھارہ ماہ سے جرمن پولیس نے دہشت گردی کے متعدد منصوبے ناکام بنا دیے ہیں، جو بظاہر جہادیوں کی طرف سے بنائے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sohn
لائپزگ، اکتوبر سن دو ہزار سولہ
جرمن شہر لائپزگ کی پولیس نے بائیس سالہ شامی مہاجر جابر البکر کو دو دن کی تلاش کے بعد گرفتار کر لیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ برلن کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ اس مشتبہ جہادی کے گھر سے دھماکا خیز مواد بھی برآمد ہوا تھا۔ تاہم گرفتاری کے دو دن بعد ہی اس نے دوران حراست خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
آنسباخ، جولائی سن دو ہزار سولہ
جولائی میں پناہ کے متلاشی ایک شامی مہاجر نے آنسباخ میں ہونے والے ایک میوزک کنسرٹ میں حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ اسے کنسرٹ کے مقام پر جانے سے روک دیا گیا تھا تاہم اس نے قریب ہی خودکش حملہ کر دیا تھا، جس میں پندرہ افراد زخمی ہو گئے تھے۔ اس کارروائی میں وہ خود بھی مارا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/D. Karmann
وُرسبُرگ، جولائی سن دو ہزار سولہ
اکتوبر میں ہی جرمن شہر وُرسبُرگ میں ایک سترہ سالہ مہاجر نے خنجر اور کلہاڑی سے حملہ کرتے ہوئے ایک ٹرین میں چار سیاحوں کو شدید زخمی کر دیا تھا۔ پولیس کی جوابی کارروائی میں یہ حملہ آور بھی ہلاک ہو گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Hildenbrand
ڈوسلڈورف، مئی سن دو ہزار سولہ
مئی میں جرمن پولیس نے تین مختلف صوبوں میں چھاپے مارتے ہوئے داعش کے تین مستبہ شدت پسندوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ پولیس کے مطابق ان میں سے دو جہادی ڈوسلڈوف میں خود کش حملہ کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hitij
ایسن، اپریل سن دو ہزار سولہ
رواں برس اپریل میں جرمن شہر ایسن میں تین مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک سکھ ٹیمپل پر بم حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
ہینوور، فروری سن دو ہزار سولہ
جرمنی کے شمالی شہر میں پولیس نے مراکشی نژاد جرمن صافیہ ایس پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے پولیس کے ایک اہلکار پر چاقو سے حملہ کرتے ہوئے اسے زخمی کر دیا تھا۔ شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس سولہ سالہ لڑکی نے دراصل داعش کے ممبران کی طرف سے دباؤ کے نتیجے میں یہ کارروائی کی تھی۔
تصویر: Polizei
برلن، فروری دو ہزار سولہ
جرمن بھر میں مختلف چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران پولیس نے تین مشتبہ افراد کو حراست میں لیا تھا، جن پر الزام تھا کہ وہ برلن میں دہشت گردانہ کارروائی کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ ان مشتبہ افراد کو تعلق الجزائر سے تھا اور ان پر شبہ تھا کہ وہ داعش کے رکن ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اوبراُرزل، اپریل سن دو ہزار پندرہ
گزشتہ برس فروری میں فرینکفرٹ میں ایک سائیکل ریس کو منسوخ کر دیا گیا تھا کیونکہ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ اس دوران شدت پسند حملہ کر سکتے ہیں۔ تب پولیس نے ایک ترک نژاد جرمن اور اس کی اہلیہ کو گرفتار کیا تھا، جن کے گھر سےبم بنانے والا دھماکا خیز مواد برآمد ہوا تھا۔