جرمنی: رشوت لے کر پناہ دینے والے اہلکار کے خلاف تفتیش شروع
22 اپریل 2018
جرمن حکام نے بی اے ایم ایف کے ایک ایسے اعلیٰ اہلکار کے خلاف تفتیش کا عمل شروع کر دیا گیا ہے جس نے مبینہ طور پر رقم اور تحائف وصول کر کے بارہ سو سے زائد تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور کی تھیں۔
اشتہار
جرمن شہر اور وفاقی ریاست بریمن کے دفتر استغاثہ کی ترجمان کلاؤڈیا کیوک نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ وفاقی دفتر برائے ترک وطن و مہاجرین (بی اے ایم ایف) کے ایک سینیئر اہلکار کے خلاف ملکی سیاسی پناہ کی نظام کی ’منظم خلاف ورزی‘ اور ’کرپشن و بدعنوانی‘ کے الزامات کی تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
رپورٹوں کے مطابق جرمن سیاسی پناہ کے نظام میں مبینہ کرپشن کے اس معاملے میں رشوت اور تحائف کے بدلے بارہ سو سے زائد تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور کی گئی تھیں۔ کیوک نے اس حوالے سے اے ایف پی کو بتایا، ’’تفتیشی اہلکار یہ جاننے کی کوشش میں ہیں کہ (پناہ کی درخواستیں منظور کرنے میں) کس حد تک رشوت یا تحائف وصول کیے گئے۔‘‘
کس جرمن صوبے میں سیاسی پناہ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں
بی اے ایم ایف کے مطابق پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے تارکین وطن کو پناہ ملنے یا نہ ملنے کا انحصار دیگر کئی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی ہے کہ ان کی پناہ کی درخواستیں کس جرمن صوبے میں جمع کرائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
برانڈنبرگ
گزشتہ برس جرمنی میں سیاسی پناہ کی سب سے کم درخواستیں جرمن صوبے برانڈنبرگ میں منظور کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Settnik
باویریا
وفاقی ریاست باویریا میں سی ایس یو برسراقتدار ہے جس کے سربراہ ہورسٹ زیہوفر نئی جرمن حکومت میں وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ زیہوفر جرمن بھر سے تارکین وطن کی ملک بدری میں اضافہ کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ گزشتہ برس ان کے صوبے میں پناہ کی درخواستیں قبول کیے جانے کی شرح 31.8 فیصد رہی۔
جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کا شمار بھی ان جرمن صوبوں میں ہوتا ہے جہاں تارکین وطن کو پناہ ملنے کے امکانات کم ہیں۔ گزشتہ برس اس صوبے میں پناہ کی 37.7 فیصد درخواستیں قبول کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Schuldt
تھیورنگیا
گزشتہ برس وفاقی جرمن ریاست تھیورنگیا میں سیاسی پناہ کے 44.1 فیصد درخواست گزاروں کو پناہ ملی جب کہ دیگر درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
تصویر: epd-bild/M. Schuck
برلن
جرمن دارالحکومت برلن وفاقی ریاست بھی ہے۔ برلن میں گزشتہ برس 44.3 فیصد پناہ گزینوں کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تصویر: Imago/C. Mang
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
اس وفاقی ریاست میں بھی سن 2017 کے دوران صرف 44.6 فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
تصویر: Fotolia/Matthias Wilm
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے حصے میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ تارکین وطن آئے۔ یہاں سیاسی پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح پینتالیس فیصد سے کچھ زائد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Ossinger
ہیمبرگ
جرمنی کے ساحلی شہر اور وفاقی ریاست ہیمبرگ میں قریب اڑتالیس فیصد پناہ کے درخواست گزاروں کو گزشتہ برس قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bildagentur-online
زیریں سیکسنی
گزشتہ برس جرمن صوبے زیریں سیکسنی میں 52.4 فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تصویر: Fotolia/Thorsten Schier
شلسویگ ہولسٹائن
اس صوبے میں بھی زیریں سیکسنی کی طرح پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح 52.4 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہیسے
وفاقی جرمن ریاست ہیسے میں بھی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کے امکانات کئی دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ گزشتہ برس اس صوبے نے پناہ کے 53.2 فیصد درخواست گزاروں کو پناہ دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بریمن
جرمنی کے شمال میں واقع شہر بریمن بھی برلن اور ہیمبرگ کی طرح وفاقی جرمن صوبہ بھی ہے۔ اس شمالی ریاست نے گزشتہ برس قریب ساٹھ فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کیں۔
تصویر: picture-alliance/K. Nowottnick
زارلینڈ
زارلینڈ جرمنی کے جنوب مغرب میں فرانسیسی سرحد کے قریب واقع ہے۔ گزشتہ برس یہاں تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح تہتر فیصد رہی جو جرمنی کی دیگر ریاستوں کی نسبت سب سے زیاد ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/O. Dietze
13 تصاویر1 | 13
مبینہ کرپشن اور بدعنوانی کے جرائم سے متعلق یہ تفتیش بی اے ایم ایف کی جس خاتون اہلکار کے خلاف شروع کی گئی ہیں وہ بریمن میں اس ادارے کے علاقائی دفتر کی ڈائریکٹر ہیں۔ دفتر استغاثہ کے مطابق اس کیس میں خاتون ڈائریکٹر کے علاوہ تین وکلا، ایک مترجم اور ایک ایجنٹ کے خلاف بھی تفتیش کی جا رہی ہے۔
رواں ہفتے پولیس نے بریمن اور زیریں سیکسنی میں وکلا کے دفاتر سمیت آٹھ مختلف مقامات پر چھاپے مار کر شواہد اکھٹے کیے۔ بی اے ایم ایف کی اس خاتون ڈائریکٹر پر شبہ ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر ان وکلا کے ساتھ مل کر ملکی پناہ کے نظام میں بدعنوانی کرتے ہوئے بارہ سو سے زائد لوگوں کو میرٹ اور قواعد کے برخلاف بطور مہاجر جرمنی میں قیام کی اجازت دی تھی۔ یہ وکلا مبینہ طور پر تارکین وطن سے بھاری رقم لے کر ان کے کیس منظور کروا رہے تھے۔
جرمن میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق خاتون ڈائریکٹر غیر قانونی طور پر پناہ کی درخواستیں منظور کرنے کے عوض ممکنہ طور پر نقد رقم بھی وصول کر رہی تھیں جب کہ وکلا اپنے کیس منظور کروانے کے لیے انہیں ریستورانوں میں کھانے پر بھی بلاتے رہے تھے۔
سن 2015 میں لاکھوں تارکین وطن کی جرمنی آمد کے بعد بی اے ایم ایف کو پناہ کی درخواستوں پر کارروائی مکمل کرنے میں شدید مشکلات پیش آئی تھیں۔ بعد ازاں اس عمل میں تیزی تو لائی گئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ناقدین پناہ کی درخواستیں منظور یا مسترد کرنے کے عمل میں بے قاعدگیوں کے باعث اس وفاقی ادارے پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران کس یورپی ملک نے غیر قانونی طور پر مقیم کتنے پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور کتنے پاکستانی شہری اس ملک سے چلے گئے؟ اس بارے میں یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار:
تصویر: picture alliance/dpa/J. Kalaene
برطانیہ
یورپی ملک برطانیہ سے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران قریب چالیس ہزار پاکستانی شہری غیر قانونی طور پر مقیم تھے جنہیں انتظامی یا عدالتی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں ستائیس ہزار سے زائد پاکستانی برطانیہ چھوڑ کر واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
یونان
یورپی یونین کی بیرونی سرحد پر واقع ملک یونان سے پچھلے پانچ برسوں میں تینتالیس ہزار پاکستانی شہری ایسے تھے جنہیں یونان میں قیام کی قانونی اجازت نہیں تھی اور انہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں سولہ ہزار سات سو پاکستانی یونان چھوڑ کر گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Lafabregue
فرانس
فرانس نے جنوری سن 2012 اور دسمبر 2016 کے درمیان غیر قانونی طور پر وہاں موجود ساڑھے گیارہ ہزار پاکستانیوں کو فرانس سے چلے جانے کا حکم دیا۔ اس عرصے میں تاہم 2650 پاکستانی شہری فرانس چھوڑ کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Widak
سپین
اسی دورانیے میں اسپین میں حکام یا عدالتوں نے جن پاکستانی باشندوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ان کی تعداد پونے آٹھ ہزار بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ برسوں میں ساڑھے چھ سو پاکستانی اسپین سے واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک چلے گئے۔
تصویر: dapd
بیلجیئم
بیلجیئم میں حکام نے ان پانچ برسوں میں قریب ساڑھے پانچ ہزار ایسے پاکستانیوں کو اپنی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا، جنہیں بلیجیم میں قانونی طور پر قیام کی اجازت نہیں تھی۔ اس عرصے میں ملک سے چلے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 765 رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Dunand
جرمنی
سن 2012 میں جرمنی میں محض پونے چار سو پاکستانی ایسے تھے جنہیں لازمی طور پر ملک جرمنی سے جانا تھا تاہم سن 2016 میں ایسے افراد کی تعداد چوبیس سو تھی اور ان پانچ برسوں میں مجموعی تعداد پانچ ہزار کے قریب بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اس دورانیے میں 1050 پاکستانی باشندے عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت جرمنی سے چلے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
آسٹریا
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران آسٹریا سے مجموعی طور پر 3220 پاکستانی باشندوں کو ملکی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا گیا تھا اور اس دوران 535 پاکستانی آسٹریا چھوڑ گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Stringer
ہنگری
ہنگری نے بھی سن 2012 سے لے کر 2016 کے اختتام تک قریب تین ہزار پاکستانیوں کو غیر قانونی طور پر مقیم قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا، تاہم اس دوران ہنگری کی حدود سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد قریب پندرہ سو رہی۔
تصویر: Jodi Hilton
اٹلی
انہی پانچ برسوں کے دوران اطالوی حکام نے بھی ڈھائی ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر وہاں مقیم پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ یورو سٹیٹ کے مطابق اس عرصے میں اٹلی سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد محض چار سو افراد پر مبنی رہی۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
یورپ بھر میں مجموعی صورت حال
مجموعی طور پر اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے رکن ممالک میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پاکستانی غیر قانونی طور پر مقیم تھے اور انہیں عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ مجموعی طور پر 54 ہزار سات سو سے زائد پاکستانی یورپی یونین کے رکن ممالک سے چلے گئے۔