جرمنی: زیادہ دھواں خارج کرنے والی کاروں پر اضافی ٹیکس
13 جون 2020
جرمن حکومت نے دھواں زیادہ خارج کرنے والی کاروں پر ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ماحول آلودہ کرنے والی کاروں پر زیادہ ٹیکس کلائمیٹ چینج اصلاحات کے تناظر میں کیا جا رہا ہے۔
اشتہار
جرمنی: زیادہ دھواں خارج کرنے والی کاروں پر اضافی ٹیکس
جرمن حکومت نے دھواں زیادہ خارج کرنے والی کاروں پر ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ماحول آلودہ کرنے والی کاروں پر زیادہ ٹیکس کلائمیٹ چینج اصلاحات کے تناظر میں کیا جا رہا ہے۔
جرمن حکومت کا موٹر وہیکل ٹیکس میں تبدیلی کا نفاذ سن 2021 سے ہوگا۔ اس بابت چانسلر میرکل کی کابینہ نے حتمی فیصلے کی منظوری جمعہ 12جون کو دی ہے۔ وزیر خزانہ اولاف شولس نے ماحول کو کاربن اخراج سے آلودہ کرنے والی کاروں پر زیادہ ٹیکس کی تجویز پیش کی تھی۔ اس اضافے سے جرمن خزانے میں بظاہر معمولی اضافے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
ماحول دوست سیاسی جماعت گرین پارٹی کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی کاروں پر ٹیکس کی شرح کوئی بہت زیادہ نہیں ہے اور محض علامتی دکھائی دیتا ہے۔ اس پارٹی کے لیڈر اینٹن ہوفرائٹر کا کہنا ہے کہ علامتی ٹیکس کے نفاذ کو ماحولیاتی پالیسی کا حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس پارٹی نے دھواں زیادہ خارج کرنے والی کاروں کے مالکان پر زیادہ مالی جرمانوں کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ اسی طرح جرمن فیڈریشن برائے تحفظِ ماحول اور نیچر نے بھی اس ٹیکس کے نفاذ پر تنقید کرتے ہوئے اس کی شرح حقیقی اخراج کے مطابق کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک اور سیاسی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) نے بھی اس ٹیکس کے نفاذ پر تنقید کی ہے۔ ایف ڈی پی کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے اقتصادی بحران کے دوران اس ٹیکس کے نفاذ سے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور یہ کوئی بہتر فیصلہ نہیں ہے۔ فری ڈیموکریٹک پارٹی لبرل اور کاروبار دوست سیاسی جماعت ہے۔
جرمن وزیر خزانہ اولاف شولس کا کہنا ہے کہ اس ٹیکس کے اطلاق سے مستقبل میں لوگ ناقص کاریں سڑکوں پر لانے سے گریز کریں گے۔ اس ٹیکس کے نفاذ کا اصولی فیصلہ چانسلر میرکل کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت میں شامل تینوں سیاسی جماعتوں نے گزشتہ برس ستمبر میں کیا تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ جرمنی میں روڈ ٹیکس انجن کے سائز اور نکلنے والے دھوئیں کی مقدار کے مطابق طے کیا جاتا ہے۔ نئے ٹیکس کا خاص طور پر اطلاق پرانی اور زیادہ کاربن خارج کرنے والی کاروں پر ہے تا کہ ان کا بتدریج خاتمہ ہو سکے۔ اس ٹیکس کی شرح کاربن ڈائی آکسائیڈ کی فی کلومیٹر اخراج کے مطابق رکھی گئی ہے۔ اضافی ٹیکس اس صورت میں لگایا جائے گا جب کار کا انجن پچانوے گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ فی کلو میٹر کی مقررہ حد سے زائد خارج کرے گا اور اس اضافی اخراج پر دو یورو بطور ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
زیادہ دھواں خارج کرنے والی کاروں میں بڑے حجم والی یا تیز رفتار فورڈ مسٹانگ اور بی ایم ڈبلیو سیون سیریز جیسی کاروں کے ساتھ ساتھ ایس یو وی اور پک اپ ٹرک بھی شمار ہوتے ہیں۔
کابینہ کے اس فیصلے کی حتمی منظوری جرمن پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے ابھی ہونی باقی ہے اور اس منظوری کے بعد اس قانون کا باضابطہ نفاذ ہو جائے گا۔ پارلیمانی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ پارلیمنٹ میں بحث کے دوران کابینہ کے منظور شدہ مجوزہ قانونی مسودے میں کئی ترامیم ہو سکتی ہیں۔
ع ح، ص ز (اے ایف پی، ڈی پی اے)
جرمنی کی بہترین کاریں، کتنی ہی یادیں جن سے جڑی ہیں
یہ گاڑیاں دیکھ کر کاروں سے محبت کرنے والے کسی بھی شخص کی آنکھیں بھیگ سکتی ہیں۔ فالکس ویگن سے بی ایم ڈبلیو اور اوپل سے مرسیڈیز بینز تک، جرمن کار ساز اداروں نے کئی شان دار ماڈلز تیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
ٹریبنٹ 601 (1964)
ٹریبنٹ سابقہ مشرقی جرمنی کے لوگوں کے لیے ویسی ہی تھی جیسی مغربی جرمنی میں فالکس ویگن بیٹل تھی، یعنی عام افراد میں مقبول۔ اسے تیار کرنا سستا تھا، کیوں کہ اس کی بیرونی باڈی پلاسٹک سے بنائی جاتی ہے۔ جب دیوارِ برلن گرائی گئی اور مشرقی جرمن سے تعلق رکھنے والے افراد نے دیگر علاقوں کا رخ کیا، تو یہ گاڑی بھی ہر جگہ دکھائی دینے لگی۔ اب بھی 33 ہزار ٹریبنٹ گاڑیاں جرمن سڑکوں پر دکھائی دیتی ہیں۔
تصویر: Imago/Sven Simon
فالکس ویگن بیٹل (1938)
فالکس ویگن کا یہ سب سے بااعتبار ماڈل کہلاتا ہے۔ مجموعی طور پر اس کار کے 21 ملین یونٹس تیار کیے گئے۔ اسے دنیا کی سب سے مشہور گاڑی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، جو سن 1938 سے 2003 تک تیار کی جاتی رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فالکس ویگن ٹی ون (1950)
فالکس ویگن کی یہ کیمپر گاڑی جرمنی میں ’بُلی‘ کے نام سے بھی مشہور ہے اور اسے ہپی تحریک میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ فالکس ویگن ابتدا میں اس گاڑی سے خوش نہیں تھی، مگر اس کی فروخت پر کوئی فرق نہ پڑا۔ اب تک فالکس ویگن کی 10 ملین بسیں فروخت ہو چکی ہیں، جن میں سے ایک اٹھارہ لاکھ ٹی ون ماڈل کی گاڑیاں ہیں۔
تصویر: DW/M. Reitz
میسرشمِٹ کیبن اسکوٹر (1953)
تین پہیوں والی یہ ایروڈائنامکس گاڑی میسر شمِٹ نامی ہوائی جہاز بنانے والا ہی تیار کر سکتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس ادارے کی پیداوار رک گئی تھی، مگر پھر کمپنی نے انجینیئر فرِٹس فینڈ کے ساتھ مل کر فلِٹسر کار متعارف کروائی۔ یہ پارٹنر شپ طویل المدتی نہیں تھی۔ میسرشِمٹ اس کے بعد دوبارہ جہاز سازی میں مصروف ہو گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Galuschka
مرسیڈیز تین سو ایس ایل (1954)
یہ کار ’گُل وِنگ‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، وجہ ہے اس کے پروں کی طرح کھلتے دروازے۔ اس ریسنگ گاڑی کی وجہ سے مرسیڈیز ایک مرتبہ پھر حیرت انگیز طور پر موٹر اسپورٹس کھیل میں واپس آئی۔ اس گاڑی نے ریسنگ کے متعدد اہم مقابلے جیتے اور پھر سڑکوں پر دکھائی دینے لگی۔
تصویر: Daimler AG
بی ایم ڈبلیو اِسیٹا (1955)
یہ گاڑی تیز رفتار تو نہیں تھی، مگر سن 1955 سے 1962 تک بی ایم ڈبلیو نے اس سے مالیاتی استحکام حاصل کیا۔ یہ موٹر سائیکل کے انجن والی گاڑی کم قیمت اور کارگر تھی۔ اسے ببل کار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ کسی فریج کی طرح سامنے سے کھلتی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
گوگوموبائل (1955)
یہ چھوٹی گاڑی بھی گاڑیوں کو پسند کرنے والوں میں مقبول ہے۔ کمپنی کے مالک کے پوتے ’ہانس گلاز‘ کی عرفیت ’گوگو‘ کو اس گاڑی سے جوڑا گیا۔ دیگر چھوٹی گاڑیوں کے مقابلے میں گوگو میں چار افراد سوار ہو سکتے تھے۔ صرف ایک اعشاریہ چھ میٹر کی جگہ کی وجہ سے گو کہ ان افراد کو ذرا سکڑ کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ اس گاڑی کو چلانے کے لیے صرف موٹرسائیکل چلانے کا لائسنس درکار ہوتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
پورشے نائن ون ون (1963)
پورشے کی نائن ون ون گاڑی کار سازی کی تاریخ کی سب سے زیادہ لمبے عرصے سے بنائی جانے والی گاڑی ہے۔ اس کے پیچھے قریب نصف صدی کی تاریخ ہے۔ یہ پورشے گاڑیوں کا ایک ٹریڈ مارک بن چکی ہے۔ گاڑی کی بناوٹ ایسی ہے کہ پورشے نائن ون ون فوراﹰ پہچانی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance//HIP
مرسیڈیز بینز 600 (1964)
اس گاڑی میں ٹیلی فون، ایرکنڈیشنر، فریزر ڈبہ اور دیگر لگژری سہولیات، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اسے سب سے لگژری گاڑی بناتے تھے۔ بہت سی مشہور شخصیات نے یہ گاڑی استعمال کی، جس میں پوپ سے جان لینن تک شامل تھے۔ جرمن حکومت کے لیے یہ کچھ مہنگی تھی، اس لیے وہ اہم مواقع پر اسے کرائے پر لیتے تھے۔