جرمنی: سابق افغان پولیس تربیت کاروں کو پناہ دلانے کی کوشش
8 فروری 2022جرمن انسانی حقوق کے گروپ پرو اسیل نے پیر کے روز بتایا کہ وکلاء نے افغان پولیس کے سابق تربیت کاروں کو جرمنی میں ویزا اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے۔
گزشتہ برس جب طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد مغرب نے افغانستان سے انخلا شروع کیا تو اس وقت یہ افراد پیچھے چھوٹ گئے تھے اور قانونی چارہ جوئی کرنے والوں کا کہنا ہے ان لوگوں کو افغانستان میں ایک ''بڑے خطرے'' کا سامنا ہے۔
مقدمہ کس نے اور کیوں دائر کیا ہے؟
جرمن انسانی حقوق کے گروپ پرو اسیل نے ایک بیان میں کہا کہ وہ برلن کی انتظامی عدالت میں دو وکیلوں کی جانب سے اس مقدمے کی حمایت کرتی ہے۔ یہ کیس میتھیاس لیہنرٹ اور سوزین جیلسر نے دائر کیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم اور ان وکلاء کا دعویٰ ہے کہ جرمن حکومت ان افغان تربیت کاروں کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہے، جو افغانستان میں جرمن سوسائٹی فار انٹرنیشنل کوآپریشن (جی آئی زیڈ) کے پولیس پروجیکٹ کے سابق ملازم تھے۔
اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ اب ان پر جاسوس ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے اور انہیں طالبان کی جانب سے دھمکیوں اور ظلم و ستم کا سامنا ہے۔ جرمن حکومت نے ان افراد سے مدد کا وعدہ کیا تھا، تاہم تربیت فراہم کرنے والوں کو ابھی تک ''مقامی فورسز'' کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کے ادارے پرو اسیل نے وکلا ء کے ساتھ ایک انٹرویو کو شائع کیا ہے، جس میں لیہنرٹ کہتے ہیں، ''یہ قانونی کارروائی برلن کی آئینی ذمہ داری پورا کرنے کے بارے میں ہے۔''
ان کا کہنا ہے، ''خطرے سے دوچار افغانوں کے داخلے کے بارے میں ہونے والی بحث میں، اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی ہمدردی کی کارروائی ہے۔ لیکن یہ سچ نہیں ہے، ہم آئینی فرائض کی بات کر رہے ہیں '' کہ جرمنی انہیں تحفظ فراہم کرے۔انہوں نے مزید کہا، ''جرمن اداروں کے لیے کام کرنے کی وجہ سے ان کی جان کو خطرات لاحق ہیں۔''
پرو ایسل کے مینیجنگ ڈائریکٹر گنٹر برکھارڈٹ نے اس قانونی چارہ جوئی کو ''مدد کے لیے ایک مایوس کن پکار'' قرار دیا۔ انہوں نے جرمن حکومت سے فوری کارروائی کی اپیل کرتے ہوئے کہا، ''انصاف کے پہیے آہستہ آہستہ گھومتے ہیں۔ کیا پتہ جب تک فیصلہ آئے، زیرِ بحث افرادپہلے ہی مر چکے ہوں۔''
مدعی کون ہیں؟
جن افغانوں کو پناہ دینے کی درخواست دی گئی ہے ان سب نے افغانستان میں افغان خواتین اور مردوں کو پولیس کے تربیتی کورسز کروائے اور جرمن سوسائٹی فار انٹرنیشنل کوآپریشن کی ہدایات کے مطابق کام کیا۔
ایک وکیل کا کہنا تھا، ''جن مدعیان کی میں نمائندگی کرتا ہوں وہ پولیس پروجیکٹ میں اپنی شمولیت کے سبب شدید خطرے میں ہیں، چونکہ وہ سکیورٹی کے شعبے میں کام کرتے تھے اور یہی طالبان کی جانب سے ان کے خلاف ظلم و ستم کی ایک اہم وجہ ہے۔''
قانونی چارہ جوئی کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے مؤکلوں کو جرمن ادارے کے منصوبے پر کئی برسوں تک کام کرنے کے باوجود جرمن حکومت کی جانب سے ان کے معاہدے کی صورتحال کی وجہ سے ویزا اور قبولیت کے خطوط سے انکار کیا جا رہا ہے۔
وکیل لیہنرٹ نے اس تفریق کو بے وفائی قرار دیتے ہوئے کہا، ''طالبان ایسے مختلف قسم کے معاہدوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔'' انہوں کہا کہ وہ عدالت میں جی آئی زیڈ پولیس پروجیکٹ کے چھ سابق ملازمین کا کیس لڑ رہے ہیں، جب کہ ان کے ایک ساتھی پانچ دیگر خاندانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
لیہنرٹ نے بتایا کہ جولائی میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے کچھ وقت قبل ہی ایک مؤکل کے خاندان کے گھر پر حملہ کیا گیا تھا اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ ''اس کے بعد انہوں نے میرے مؤکل کو آٹھ گھنٹے تک درخت سے لٹکایا اور اس کی کئی ہڈیاں توڑ دیں۔ انہوں نے اس سے کہا کہ چونکہ اس نے جرمنوں کے ساتھ تعاون کیا اس لیے اس نے بڑا گناہ کیا ہے۔''
وکیل نے مزید کہا کہ ایک اور مؤکل کے بھائی کو اس لیے قتل کر دیا گیا کیونکہ وہ یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے کہ انہوں نے، ''جرمنوں کے ساتھ تعاون کیا تھا یا نہیں۔''
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)