جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل نے کورونا وائرس کے متعلق سازشی نظریات کو سامیت مخالف جرائم میں حالیہ اضافہ کا سبب قرار دیا ہے۔
اشتہار
جرمنی میں حالیہ برسوں میں سامیت مخالف حملوں اور سامیت دشمنی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جس میں سن 2019 میں ہالے شہر میں ایک سیناگوگ کے باہر ہونے والا مہلک حملہ بھی شامل ہے۔
جرمن حکومت کی طرف سے شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں سن 2020 میں سامیت مخالف جرائم میں اضافے کا ایک نیا رجحان دیکھنے کو ملا ہے۔
حکام نے جنوری 2021 تک سامیت مخالف اور سامیت منافرت پر مبنی کم از کم 2275 جرائم کے معاملات درج کیے۔ ان میں سے تقریباً 55 معاملات تشدد سے متعلق تھے۔
پولیس نے گوکہ 1367 کیسز کی تفتیش کی تاہم حکام نے صرف پانچ مشتبہ افراد کو حراست میں لیا اور کسی کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری نہیں کیا گیا۔
جرمن پولیس نے سن 2001 میں جب سے ”سیاسی اغراض پر مبنی جرائم" کے اعداد و شمار یکجا کرنے شروع کیے ہیں اس کے بعد سے سامیت مخالف جرائم کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔ یہ ابتدائی اعداد و شمار بائیں بازو کی جماعت کے رکن اور بنڈسٹیگ کے نائب صدر پیٹرا پاو کی درخواست پر جاری کیے گئے ہیں۔ حتمی اعداد و شمار میں اس تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جرمنی میں سامیت مخالف جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سن 2018 میں ایسے 1799واقعات درج کرائے گئے تھے جب کہ سن 2019 میں ان واقعات کی تعداد بڑھ کر 2032 ہوگئی۔
جرمن تاريخ کا ايک سياہ باب: یہودیوں کی املاک پر نازیوں کے حملے
نو اور دس نومبر 1938ء کو نازی جرمنی میں یہودی مخالف واقعات رونما ہوئے، جنہیں ’کرسٹال ناخٹ‘ یعنی ’ٹوٹے ہوئے شیشوں کی رات’ کہا جاتا ہے۔ اُس رات یہودی عبادت گاہوں اوراملاک پر حملوں کے نتیجے میں سڑکوں پر شیشے بکھر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Schreiber
نو اور دس نومبرکی رات کیا ہوا تھا؟
نازی نیم فوجی دستے ’ایس اے‘ کی قیادت میں سامیت مخالف شہریوں کا مجمع جرمنی کی سڑکوں پر نکلا۔ مشرقی جرمن شہر کیمنٹس کی اس یہودی عبادت گاہ کی طرح دیگرعلاقوں میں بھی یہودیوں کی املاک پر حملے کیے گئے۔ اندازے کے مطابق صرف ایک رات میں یہودیوں کے زیر ملکیت کم ازکم ساڑھے سات ہزار کاروباری مراکز کو نقصان پہنچایا گیا اور سامان لوٹا گیا۔
تصویر: picture alliance
نام کے پیچھے کیا پوشیدہ ہےِ؟
جرمن یہودیوں کے خلاف ہونے والے اس تشدد کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے۔ برلن میں اسے ’کرسٹال ناخٹ‘ (Night of Broken Glass) کہتے ہیں، جس کے اردو میں معنی ہیں ’ٹوٹے ہوئے شیشوں کی رات‘۔ اُس رات یہودی عبادت گاہوں، گھروں اور یہودیوں کے کاروباری مراکز پر منظم حملوں اور تباہی کے نتیجے میں جرمنی کی سڑکوں پر جگہ جگہ شیشے بکھر گئے تھے۔
تصویر: picture alliance/akg-images
سرکاری موقف کیا تھا؟
یہ واقعات ایک جرمن سفارت کار ارنسٹ فوم راتھ کے ایک سترہ سالہ یہودی ہیرشل گرنزپان کے ہاتھوں قتل کے بعد شروع ہوئے تھے۔ راتھ کو سات نومبر کو پیرس میں جرمن سفارت خانے میں قریب سے گولی ماری گئی تھی اور وہ ایک دن بعد انتقال کر گئے تھے۔ گرنزپان کو سزائے موت نہیں دی گئی تھی لیکن کسی کو یہ نہیں علم کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کيا گيا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Imagno/Schostal Archiv
حملے اور تشدد کیسے شروع ہوا؟
سفارت کار ارنسٹ فوم راتھ کے قتل کے بعد اڈولف ہٹلر نے اپنے پروپگینڈا وزیر جوزیف گوئبلز کو یہ کارروائی شروع کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس سے قبل ہی کچھ مقامات پر ہنگامہ آرائی شروع ہو چکی تھی۔ گوئبلز نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ نازی یہودیوں کے خلاف اچانک شروع ہونے والے کسی بھی احتجاج کو نہيں روکیں گے۔ اس دوران جرمنوں کی زندگیوں اور املاک کی حفاظت کرنے کی بھی ہدایات دی گئی تھیں۔
تصویر: dpa/everettcollection
کیا یہ تشدد عوامی غصے کا اظہار تھا؟
ایسا نہیں تھا، بس یہ نازی جماعت کی سوچ کا عکاس تھا، لیکن کوئی بھی اسے سچ نہیں سمجھ رہا تھا۔ نازی دستاویزات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان حملوں اور تشدد کا منصوبہ پہلے ہی تیار کیا جا چکا تھا۔ یہ غیر واضح ہے کہ اس بارے میں عام جرمن شہریوں کی رائے کیا تھی۔ اس تصویر میں ایک جوڑا ایک تباہ حال دکان کو دیکھ کر مسکرا رہا ہے اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہی رائے رکھتی تھی۔
اپنے نسل پرستانہ نظریات کی وجہ سے نازی چاہتے تھے کہ یہودی رضاکارانہ طور پر جرمنی چھوڑ دیں۔ اس مقصد کے لیے یہودیوں کو سڑکوں پر گھمایا جاتا تھا ور سرعام ان کی تذلیل کی جاتی تھی۔ اس تصویر میں یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے۔ نازیوں کے ظلم و ستم سے پریشان ہو کر فرار ہونے والے یہودیوں پر مختلف قسم کے محصولات عائد کیے گئے اور اکثر ان کی املاک بھی ضبط کر لی گئی تھیں۔
تصویر: gemeinfrei
کیا نازی اپنے مقصد میں کامیاب رہے؟
ان پرتشدد واقعات کے بعد جرمن یہودیوں اور ملک چھوڑ جانے والوں کو نازیوں کے ارادوں کے بارے میں کوئی شکوک وشبہات نہیں رہے تھے۔ تاہم اس طرح کے کھلے عام تشدد پر غیر ملکی میڈیا میں کڑی تنقید کی گئی۔ اس کے بعد یہودیوں پر لازم کر دیا گیا کہ وہ اپنے لباس پر پیلے رنگ کا ستارہ داودی لگا کر باہر نکلیں گے۔
تصویر: gemeinfrei
حملوں کے بعد کیا ہوا؟
ان حملوں کے بعد نازی حکام نے یہودی مخالف اقدامات کی بوچھاڑ کر دی، جن میں ایک طرح کا ایک ٹیکس بھی عائد کرنا تھا۔ اس کا مقصد ہنگامہ آرائی کے دوران ہونے والے نقصان کی ادائیگی تھا۔ کرسٹال ناخٹ اور اس کے بعد کی دیگر کارروائیوں میں ایک اندازے کے مطابق تقریباﹰ تیس ہزار یہودیوں کو قیدی بنا لیا گیا تھا، کئی ہلاک ہوئے اور باقی یہودیوں کو جرمن علاقوں کو چھوڑ کر چلے جانے کے وعدے کے بعد آزاد کیا گیا تھا۔
تصویر: AP
کرسٹال ناخٹ کا تاریخ میں کیا مقام ہے؟
1938ء میں ہولوکاسٹ یعنی یہودیوں کا قتل عام شروع ہونے میں ابھی دو سال باقی تھے۔ عصر حاضر کے ایک تاریخ دان کے مطابق کرسٹال ناخٹ کے دوران کی جانے والی کارروائیوں کا مقصد یہودیوں کو اقتصادی اور سماجی طور پر تنہا کرنا تھا اور انہیں اس بات پر مجبور کرنا تھا کہ وہ جرمن علاقے چھوڑ دیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس دوران91 یہودی شہری ہلاک ہوئے جبکہ کہا جاتا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
تصویر: Imago
9 تصاویر1 | 9
یہودی برادری کا ردعمل
جرمنی میں یہودیوں کی مرکزی کونسل کے صدر جوزف سوشٹرسازشی نظریات اور کورونا وائرس کے متعلق شبہات کوسامیت مخالف جرائم میں اضافہ کا سبب قرار دیتے ہیں۔
اشتہار
انہوں نے کہا”گزشتہ برس کورونا وائرس کے سلسلے میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران سامیت مخالف متعدد واقعات دیکھنے میں آئے۔ آن لائن سازشی نظریات بھی دیکھے گئے۔ یہ افسوس کی بات ہے اور اس سے سامیت مخالف جرائم میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔"
سوشٹر کا کہنا تھا کہ جرائم کے واقعات میں اضافے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ''سماج میں شدت پسندی کا عمل تیز ہو رہا ہے اور اقلیتوں کے تئیں احترام کا جذبہ کم ہوتا جا رہا ہے۔" انہوں نے بالخصوص آئندہ انتخابات کے دوران سامیت مخالفت واقعات پرروک لگانے کی اپیل کی۔
یہودی خاندان پر سامیت مخالف حملہ، مسلمان خاتون نے بچا لیا
00:51
جرمنی سامیت منافرت کے خلاف متحد ہو
جرمن وفاقی حکومت کے سامیت مخالف کمشنر فلیکس کلین نے کہا ”نئے اعداد و شمار ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی ہونی چاہیے۔ مجرمانہ واقعات میں اضافہ اس ضرورت کو اجاگر کرتا ہے کہ جمہوریت کو بالخصوص موجودہ وبا جیسے بحرانی حالات میں کس طرح زیادہ دفاع کرنے والا ہونا چاہیے۔
کمشنر نے کہا کہ جرمنی میں سماجی ہم آہنگی کا تعین اس بات سے کیا جاتا ہے کہ ہم یہودیوں کے خلاف نفرت کے خلاف کتنا متحد ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جرمن پولیس نے جو عداد و شمار جمع کیے ہیں اس کے مطابق سامیت مخالف جرائم کے بیشتر واقعات میں دائیں بازو سے وابستہ افراد ملوث تھے۔ اسلام پسندوں، بائیں بازو یا دیگر افراد کی تعداد بہت معمولی تھی۔