جرمنی: ساڑھے پانچ ہزار تنہا مہاجر بچے کہاں کھو گئے؟
شمشیر حیدر کنپ کِرسٹِن
5 جولائی 2017
جرمنی میں بچوں کی بہبود کے ایک نجی سماجی ادارے کا کہنا ہے کہ ملک میں تنہا آنے والے پانچ ہزار سے زائد مہاجر بچے ’لا پتہ‘ ہیں۔ ان میں سے کئی کی عمریں تیرہ برس سے بھی کم ہیں۔
اشتہار
ڈی ڈبلیو کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں جرمنی میں بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیم ’ڈوئچے کنڈر ہِلف ورک‘ کی ترجمان لنڈا زائیانے نے بتایا کہ جرمنی میں تنہا آنے والے اٹھارہ برس سے کم عمر کے ساڑھے پانچ ہزار سے زائد مہاجر بچے ’گمشدہ‘ تصور کیے جا رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں زائیانے کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم ہر تین ماہ بعد جرائم سے متعلق وفاقی جرمن پولیس سے گم ہو جانے والے تنہا مہاجر بچوں کے نئے اعداد و شمار حاصل کرتی ہے۔
شامی مہاجر بچے زندگی کس طرح گزار رہے ہيں؟
شامی خانہ جنگی کے سبب اپنا گھر بار چھوڑنے والے قريب 4.8 ملين افراد ميں نصف سے زائد تعداد بچوں کی ہے۔ يورپ اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں قائم مہاجر کيمپوں ميں پرورش پانے والے ان بچوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔
بے بسی اور معصوميت کا ملاپ
شمالی يونانی شہر اڈومينی کے قريب مقدونيہ اور يونان کی سرحد پر ايک بچہ ريلوے ٹريک پر کھيل رہا ہے۔ بلقان روٹ کی بندش کے بعد اڈومينی کے مہاجر کيمپ ميں ہزاروں مہاجرين پھنس گئے ہيں۔ اقوام متحدہ اور کئی امدادی تنظيموں کی جانب سے بارہا خبردار کيا جا رہا ہے کہ علاقے ميں مسلسل بارشوں اور سرد موسم کے سبب حالات انتہائی خراب ہيں اور بچوں ميں کئی اقسام کی بيمارياں پيدا ہونے کے امکانات کافی زيادہ ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki
پيٹ کی خاطر
يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر ايک شامی بچہ روٹی ليے بھاگ رہا ہے۔ ايتھنز حکومت بارہا تنبيہ کر چکی ہے کہ بلقان روٹ کی بندش کے سبب يونان ميں اڈومينی کے مقام پر پھنسے ہوئے پناہ گزينوں کی تعداد ايک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ ايسے ميں کھانے پيشے کی اشياء کی خاطر لڑائی جھگڑے عام ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Dilkoff
بے بسی اور بد حالی کی تصوير
لبنان کے دارالحکومت بيروت کے نواح ميں ايک مہاجر خاتون سڑک کے کنارے بيٹھ کر اپنے بچوں کے ساتھ کھيل رہی ہے۔ لبنان ميں تقريباً ايک اعشاريہ دو ملين سے زائد پناہ گزين مقيم ہيں، جن ميں بچوں کی شرح 53 فيصد ہے۔ سيو دا چلڈرن نامی ادارے کے مطابق لبنان ميں 313,000 بچوں کو انسانی بنيادوں پر فوری مدد درکار ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Mazraawi
بے يار و مددگار
استنبول کے قريب موٹر وے پر حکام کی جانب سے روکے جانے پر ايک غير قانونی تارک وطن کے ہاتھوں ميں بچہ بے ساختہ رو پڑا۔ گزشتہ برس ستمبر کے بعد مہاجرين کے بحران کے عروج پر ہزاروں تارکين وطن استنبول سے اڈيرن شہر کی جانب پيش قدمی کيا کرتے تھے۔ یورپ میں تارکین وطن کا بحران شروع ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ یونان سے مقدونیہ آنے والے پناہ گزینوں میں عورتوں اور بچوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Orsal
ايک خواب جو پورا نہ ہو سکا
ترک شہر استنبول ميں شامی بچوں کے ليے ايک اسکول۔ اگرچہ ترکی ميں ہزارہا شامی بچے اسکول جا رہے ہيں تاہم اب بھی لاکھوں کو يہ بنيادی سہولت ميسر نہيں۔ اقوام متحدہ کی بچوں سے متعلق ايجنسی نے اسی ہفتے جاری کردہ اپنی ايک رپورٹ ميں انکشاف کيا ہے کہ اس وقت تقريباً تين ملين شامی بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہيں۔
تصویر: DW/K. Akyol
ہر حال ميں گزارا
اس تصوير ميں ايک شامی تارک وطن خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ بيٹھے کھانا پکا رہی ہے۔ لبنان ميں جبل الشوف کے پہاڑی سلسلے کے قريب واقع کترمایا نامی گاؤں ميں شامی پناہ گزينوں کا ايک کيمپ قائم ہے۔ پس منظر ميں برفباری ديکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari
ہر دن ايک نئی صبح
شامی شہر کوبانی سے تعلق رکھنے والے کرد مہاجرين کے بچے عارضی خيمے لگا رہے ہيں۔ آئی او ایم کے مطابق جنوری کے مہینے میں بحیرہ ایجیئن میں ڈوبنے والے ہر پانچ تارکین وطن میں سے ایک شیر خوار بچہ تھا۔ جنوری کے مہینے ميں ترکی سے یونان جانے کی کوششوں کے دوران 272 مہاجرین ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے جن میں 60 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/K. Cucel
مہاجرين کی صفوں ميں شامل تنہا بچے
جرمن دارالحکومت برلن کے ايک اسکول کے اسپورٹس ہال ميں قائم مہاجر کيمپ کا ايک منظر، جہاں ايک بچہ بستروں کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ گزشتہ برس جرمنی پہنچنے والے تارکين وطن ميں ستر ہزار کے لگ بھگ تنہا بچے بھی شامل تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
مہاجرين ميں کتنے بچے شامل
پچھلے چند مہينوں کے دوران يورپ پہنچنے والے تارکين وطن ميں مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد کیا تھی۔
9 تصاویر1 | 9
ان اعداد و شمار میں ایک پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ خاص طور پر ایسے تنہا مہاجر بچوں کی، جن کی عمریں تیرہ برس سے بھی کم ہیں، گمشدگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مجموعی طور پر جرمنی میں ساڑھے پانچ ہزار گمشدہ نابالغ مہاجر بچوں میں سے قریب ایک ہزار کی عمریں تیرہ برس سے بھی کم ہیں۔
زائیانے نے یہ بھی بتایا کہ صرف جرمنی ہی نہیں بلکہ یورپ بھر میں نابالغ بچوں کی گمشدگی کی اطلاعات ہیں۔ مجموعی طور پر یورپ میں ایسے گمشدہ کم عمر تارکین وطن کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے اور یورپی یونین کے رکن ممالک کی حکومتیں ان بچوں کے حوالے سے بے بس دکھائی دیتی ہیں۔
بچوں کی بہبود سے متعلق اس جرمن سماجی تنظیم کی ترجمان سے ڈی ڈبلیو نے پوچھا کہ یہ گمشدہ بچے کہاں گئے اور ان کے گمشدہ ہونے کے محرکات کیا ہیں تو ان کا کہنا تھا اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی۔
زائیانے کے مطابق ممکنہ طور پر شاید کئی بچے دوسرے یورپی ممالک میں اپنے رشتہ داروں کے پاس چلے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں بعض اوقات بچوں کا اندراج بھی ایک سے زائد مرتبہ ہونے کے باعث بھی ان اعداد و شمار پر مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ادارے کی اپنی تحقیقات کے مطابق کئی نابالغ تارک وطن بچے جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھ لگ چکے ہیں اور ممکنہ طور پر انہیں منشیات کی اسمگلنگ اور منظم جسم فروشی جیسے کام لیے جاتے ہیں۔
انہوں نے ایسے بچوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے مؤثر اقدامات نہ کرنے کے باعث جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کی حکومتوں پر شدید تنقید کی۔ زائیانے کا کہنا تھا کہ اگر یورپی حکومتیں ایسے نابالغ مہاجر بچوں کو ان کے عزیز و اقارب تک پہنچانے میں معاونت فراہم کریں تو ان کی گمشدگی کم ہو سکتی ہے۔
اس حوالے سے انہوں نے یورپی سطح پر منظم اور ٹھوس اقدامات کیے جانے کا مطالبہ بھی کیا۔