جرمنی: سرکاری ملازم کو مصر کے لیے جاسوسی کرنے پر سزا
11 مارچ 2021
مذکورہ شخص نے جرمن چانسلر کے دفتر میں کام کے دوران مصری خفیہ ایجنسی کے لیے جاسوسی کرنے کا اعتراف کیا تھا۔
اشتہار
جرمنی میں ایک سرکاری وکیل نے بدھ 10 مارچ کو بتایا کہ برلن کی ایک عدالت نے ایک مصری نژاد جرمن شہری کو چانسلر انگیلا میرکل کے دفتر میں کام کرنے کے دوران مصر کے لیے جاسوسی کرنے کا قصوروار ٹھہرایا ہے۔
مصری نژاد 66 سالہ جرمن شہری امین سن 1999 سے ہی برلن میں محکمہ پریس کے وفاقی ادارے میں کام کرتے تھے۔ جاسوسی سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران انہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا تھا اور عدالت نے انہیں گزشتہ ہفتے اس کے لیے قصوروار قرار دیا تھا۔ عدالت نے اب انہیں ایک برس نو ماہ کے قید معطل کی سزا سنائی ہے۔
مقدمہ کیا تھا؟
سرکاری وکیل نے صحافیوں سے بات چیت میں بتایا کہ امین مصر کی خفیہ ایجنسی 'جنرل انٹیلیجنس سروس' (جی آئی ایس) کو سن 2010 اور 2019 کے درمیان معلومات فراہم کرتے رہے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ امین نے اپنے عہدے کا غلط فائد اٹھاتے ہوئے جرمن میڈیا کی کوریج کے بارے میں مصر کو اطلاعات فراہم کرنے کے لیے دفتری آلات کا بھی استعمال کیا۔
انہوں نے جرمن پارلیمان میں ترجمے کا کام کرنے والے ایک شخص کو بھی مصری خفیہ ایجنسی کے لیے جاسوسی پر آمادہ کرنے کی بھی نا کام کوشش کی۔ انہوں نے اس کیس میں اپنے پانچ شامی نژاد میڈیا ساتھیوں کا بھی نام لیا تھا۔
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
8 تصاویر1 | 8
تفتیش کرنے والے حکام نے تاہم چھان بین کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان کے پاس حکومت کی خفیہ معلومات تک کوئی رسائی نہیں تھی۔ مصری خفیہ ایجنسی کو معلومات فراہم کرنے کے بدلے میں مصری حکام کا ان کے ساتھ بہتر سلوک ہوتا تھا اور سینیئر حکام کی نظر میں انہیں ترجیح حاصل تھی۔
مصر کا مفاد کیا ہے؟
جرمنی کے خفیہ اداروں کے مطابق مصری خفیہ ایجنسی جی ایس آئی جرمنی میں رہنے والے مصریوں کو اپنے لیے جاسوسی کرنے کے لیے بھرتی کرنے کے لیے کوشش کرتی رہی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مصری حکومت مصری اپوزیشن رہنماؤں سے متعلق معلومات جمع کرنے کی بھی کوشش کرتی تھی۔
سن 2014 میں فوجی سربراہ عبد الفتاح السیسی کے مصر کے صدر کے طور پر عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ہی حزب اختلاف کے خلاف سخت کریک ڈاؤن جاری ہے جس کی وجہ سے بہت سے مصری کارکن، صحافی اور دانشور اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور جرمنی میں پناہ لے رکھی ہے۔ مصر کی توجہ ایسے ہی افراد کی جاسوسی پر رہی ہے۔