1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی سعودی عرب کو یورو فائٹرز کی ترسیل کے لیے تیار

8 جنوری 2024

جرمن چانسلر اولاف شوُلس نے جرمن وزیر خارجہ انا لینا بیئربوک کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ’’اسرائیل کے بارے میں انتہائی تعمیری موقف‘‘ کے بدلے میں برلن حکومت ریاض کو جنگی طیاروں کی فروخت کے لیے تیار ہے۔

Eurofighter Typhoon-Kampfjet bei eine Training der NATO in Italien
تصویر: GIUSEPPE LAMI/ANSA/picture alliance

پیر 8 جنوری کو برلن میں وفاقی حکومت کے ترجمان اشٹیفن ہیبے اشرائیٹ  نے ایک بیان میں کہا کہ  جرمن چانسلر  سعودی عرب کو طیاروں کی فراہمی کے حوالے سے اپنی وزیر خارجہ کے  ''کھلے پن‘‘ کی مکمل تائید کرتے ہیں اور اُن کے اس موقف کے ساتھ ہیں کہ  ''سعودی عرب نے اسرائیل  کے ساتھ مثبت رویہ اپنایا ہے‘‘ اس لیے برلن حکومت ریاض کو یوروفائٹرز کی فروخت   کے لیے تیار ہے۔

جرمن حکومتی ترجمان اشٹیفن ہیبے اشرائیٹ نے گزشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کی طرف سے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملوں کے حوالے سے کہا کہ  اُس کے بعد سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ، جو رویہ اور موقف اپنایا ہے اُسے جرمن چانسلر اور جرمن وزیر خارجہ بہت سراہتے ہیں اور اس سعودی رویے کا جائزہ لینے کے بعد ان دونوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جرمنی سعودی عرب کو یوروفائٹرز کی فروخت کے لیے رضامند ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ یعنی دسمبر کے اواخر میں  جرمنی میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (CDU) کے ترجمان نے کہا تھا کہ جرمنی کو سعودی عرب پر عائد یورو فائٹر ٹائفون جنگی طیاروں کی فروخت کی پابندی ہٹا لینی چاہیے۔

یورو فائٹرز ایک مشترکہ یورپی منصوبہ ہے، جس میں جرمنی بھی شامل ہےتصویر: AFP via Getty Images

سی ڈی یو کے اس  بیان کے مطابق اس طرح سعودی عرب کی اسرائیل کی طرف موجودہ پالیسی میں تبدیلی کو روکا جا سکتا تھا۔ مزیدبرآں سعودی عرب کے  چین کی طرف زیادہ جھکاؤ کو روکنے کے لیے بھی یہ ایک کارآمد طریقہ ہر سکتا ہے۔  سی ڈی یو کے مطابق  جرمنی سعودی عرب کے ساتھ تعاون بڑھانے میں اسٹریٹیجک دلچسپی رکھتا ہے اور اس کا مقصد سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو مستحکم بنانا ہے۔

غزہ کی جنگ کے سعودی اسرائیلی روابط پر اثرات

03:30

This browser does not support the video element.

سعودی عرب کی طرف سے یورو فائٹرز کا استعمال

 جرمن حکومت کے ترجمان اشٹیفن ہیبے اشرائیٹ نے اپنے بیان میں مزید کہا،'' سعودی عرب کی فضائیہ نے بھی یورو فائٹرز کو استعمال کرتے ہوئے (یمن سے) اسرائیل کی طرف داغے گئے حوثی میزائلوں کو مار گرایا  اور اس نوعیت کی تمام پیشرفت کی روشنی میں یورو فائٹر کی سعودی عرب کو ترسیل کے معاملے میں جرمن حکومت کی پوزیشن کو دیکھنا ضروری ہے۔‘‘ حکومتی ترجمان کا مزید کہنا تھا، ''یہ فیصلہ حکومت کے اندرونی حلقوں میں مربوط اور ہم آہنگ  طریقے سے کیا گیا ہے۔‘‘ 

سعودی عرب کو اسلحے کی فراہمی متنازعہ کیوں؟

سعودی عرب کو اسلحے فراہم کرنے کے معاملے کے متنازعہ ہونے کی ایک بڑی وجہ اس عرب ریاست میں پائی جانے والی انسانی حقوق کی صورتحال ہے۔ ساتھ ہی اس ابھرتی ہوئی  فوجی طاقت کی طرف سے علاقائی یا خطے کے تنازعات میں مسلسل مداخلت بھی ایک بڑی وجہ ہے۔

خلیجی ریاست سعودی عرب کے لیے یورو فائٹرز کی ترسیل کو روکنے کا فیصلہ گزشتہ سال جولائی میں کیا گیا تھا۔

سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال پر یورپی ممالک کو تشویش ہےتصویر: BARNI Cristiano/ATP photo agency/picture alliance

یوروفائٹرز  سازی کا منصوبہ

لڑاکے طیارے یورو فائٹرز کی تیاری دراصل ایک مشترکہ یورپی منصوبہ ہے، جس میں جرمنی بھی شامل ہے۔ اس لیے برلن حکومت کو اس کے برآمدی فیصلوں پر ویٹو کا حق حاصل ہے۔ یوروفائٹرز برطانیہ میں تیار  کیے جاتے ہیں، جو سعودی عرب کو ان کی فراہمی کے لیے تیار ہے۔

غیر تصدیق شدہ اطلاعات کے مطابق یہ  سعودی عربکو غالباً 48 طیاروں کی فراہمی کا معاملہ ہے۔ دریں اثناء جرمن نشریاتی ادارے  اے آر ڈی اور زیڈ ڈی ایف کو بیان دیتے ہوئے وفاقی جرمن وائس چانسلر اور وزیر اقتصادیات رابرٹ ہابیک نے بتایا،'' سعودی ڈیفنس میزائل اسرائیل کا بھی دفاع کرتے ہیں۔‘‘

سعودی شہزادے کو خاشقجی کے قتل کی تحقیقات کا سامنا کرنا چاہیے

02:24

This browser does not support the video element.

ہابیک نے مزید کہا کہ خطے میں امن کا عمل بھی بہت حد تک سعودی عرب پر منحصر ہے۔ جرمن وائس چانسلر کے بقول،''ریاض حکومت نے اسرائیل کے معاملے میں ایک سازگار موقف اختیار کیا ہے اور وہ یہی کرنا چاہتے ہیں۔‘‘   ہابیک نے تاہم اس امر کا اعتراف کیا کہ  سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال تشویش ناک ہے ۔ ان کا کہنا تھا،''ان کا معیار ہمارے معیار پر کہیں سے پورا نہیں اترتا  لیکن گزشتہ پانچ چھ سال کے مقابلے میں اس وقت صورتحال مختلف ہے۔‘‘

ک م/ ش ر(ڈی پی اے، ای سی اے)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں