ایسے جرمنوں کی تعداد اب بڑھتی جا رہی ہے، جن کی خواہش ہے کہ وفات کے بعد ان کے جسم کو جلا کر راکھ سمندر برد کر دیا جائے۔ لیکن جرمن شہریوں میں یہ رجحان کیوں مقبولیت حاصل کر رہا ہے؟
تصویر: Passages International, Inc.
اشتہار
جرمنی میں انڈرٹیکرز کی وفاقی تنظیم )ڈی بی بی) کا نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ برس نارتھ اور بالٹک سمندر میں تقریبا بیس ہزار میتوں کی باقیات کو سمندر برد کیا گیا۔ اس تنظیم کے مطابق اس رجحان میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جرمن عوام کی نقل و حرکت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
جرمنیمیںمُردوںکیتدفین،بڑھتاہوامسئلہ
ڈی بی بی کے ڈپٹی چیئرمین گابرئیلے وولگاسٹ کے مطابق انسانی باقیات کو سمندر برد کرنے کے حوالے سے صحیح اعداد و شمار جمع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن یہ واضح ہے کہ اس رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
وولگاسٹ کا کہنا ہے کہ دو سے اٹھارہ فیصد وفات پانے والوں کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ تدفین کی بجائے ان کی جسمانی باقیات کو جلا دیا جائے اور راکھ سمندر میں بہا دی جائے۔ جرمن میڈیا کے مطابق اس رجحان میں جغرافیے کا بھی عمل دخل ہے۔ جو لوگ سمندر سے بہت دور رہتے ہیں، ان میں ایسا کرنے کی خواہش بہت کم ہے۔
تصویر: Passages International, Inc.
گابرئیلے وولگاسٹ کہتے ہیں کہ لوگ تدفین کے روایتی طریقے سے دور ہٹتے جا رہے ہیں، ''لوگوں کے لیے قبروں کے کرائے ادا کرنا اور پھر ان کی تزئین و آرائش کا خیال رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ جرمنی میں گمنام تدفین کا سلسلہ بھی عروج پکڑتا جا رہا ہے۔ روایتی طریقہ تدفین میں لوگوں کے زیادہ پیسے لگتے ہیں جبکہ متبادل طریقے سستے ہیں۔ ڈی بی بی کے مطابق میت کی باقیات کو صرف سمندر برد ہی کیا جاتا ہے کیوں کہ جرمن قانون کے مطابق ایسا جھیلوں میں نہیں کیا جا سکتا۔ مردوں کو جلانے اور قدرتی مقامات پر 'تدفین‘ کرنے سے قبرستان متاثر ہو رہے ہیں کیوں کہ اس طرح روایتی قبرستانوں کی وقعت اور اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ اندازوں کے مطابق اب سالانہ 45 ہزار انسانی لاشوں کی راکھ کی 'تدفین‘ کسی نہ کسی درخت کے پاس کی جا رہی ہے۔
ا ا / ع ب ( ڈی پی اے )
ماحول دوست تدفین رواج پکڑتی ہوئی
جرمنی میں آخری رسومات کا انتظام کرنے والی کمپنیوں نے تحفظِ ماحول کا خیال رکھتے ہوئے نئے طریقے متعارف کرائے ہیں۔ اب ایسے تابوت تیار کیے جا رہے ہیں، جو ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر فوری طور پر قدرتی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں۔
تصویر: ARKA Ecopod
بید سے بنا تابوت
جسے روایتی تابوت کی بناوٹ پسند نہ ہو وہ اپنی زندگی میں ہی اپنی لیے بید سے بُنے تابوت کا انتخاب کر سکتا ہے۔ اس تابوت کی بُنائی کا کھلنا آسان ہوتا ہے اور اس کے اندر لگے کپڑے کو الگ کرنا بھی مشکل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بید کا درخت بہت تیزی سے بھی بڑھتا ہے۔ اس انداز میں تدفین کے خواہش مند افراد کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد بھی ماحول دوست ہی رہے۔
تصویر: Passages International, Inc.
کفن
ہزاروں سالوں سے مردوں کو کپڑے میں لپیٹ کر دفنانے کا سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ یورپ میں ابھی تک لوگ مردوں کو دفنانے کا یہ طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تدفین کا یہ انداز کم خرچ ہے، وہ غلطی پر ہیں کیونکہ کفن کے کپڑے کی قیمت ایک ہزار ڈالر تک بھی ہوتی ہے۔
تصویر: Gordon Tulley, Respect Funeral Services
اخباری کاغذ سے تیار کردہ تابوت
یہ بات بالکل بھی دلفریب نہیں لگتی کہ کوئی شخص اپنا آخری سفر اخبار کے دوبارہ کارآمد بنائے گئے صفحات میں طے کرے۔ اب اخبارات کے صفحات کو بھی خوبصورت تابوتوں کی شکل دی جانے لگی ہے۔ اگر کسی کو یہ ناپسند ہوں تو تابوت سونے کا بھی بنوایا جا سکتا ہے۔ آخر کار مرتا تو انسان صرف ایک ہی بار ہے۔
تصویر: ARKA Ecopod
کم وزن اور ہلکا پھلکا
اخبارات کے صفحات سے بنائے گئے تابوتوں کا وزن نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ دفنانے کے بعد یہ بہت جلد ہی مٹی کا حصہ بن جاتے ہیں، جو قبرستان کے قدرتی ماحول کے لیے بہت ہی سازگار ہوتا ہے۔
تصویر: ARKA Ecopod
اخبار سے بنایا گیا مصری راکھ دان
اخبارات سے تیار کردہ راکھ دان بھی اُسی کمپنی کی اختراع ہیں، جس نے اخباری کاغذ سے بنائے گئے تابوت متعارف کرائے ہیں۔ ڈیزائنر ہَیزل سیلینا کا کہنا ہے کہ قدیم مصر میں تجہیز و تکفین کی رسومات نے اُنہیں بہت متاثر کیا اور اخبارات سے راکھ دان بنانے کا خیال بھی اُن کے ذہن میں اِنہی مصری روایات کی وجہ سے آیا۔
تصویر: ARKA Ecopod
درخت کی طرح کا راکھ دان
مختلف شکلوں کے راکھ دان بنانے والی مختلف کمپنیوں نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ایسے برتن بھی بنائے ہیں، جن میں کھاد اور بیج بھی موجود ہوتے ہیں۔ سِرامک کا بنا اِس برتن کا ڈھکن اُس وقت ٹوٹ جاتا ہے، جب پودہ زمین سے اُبھرنا شروع کرتا ہے۔
تصویر: Spíritree
زیرِ آب راکھ دان
اپنی راکھ کے سمندر برُد کیے جانے کی خواہش رکھنے والے افراد کے لیے کاغذ سے بنا ہوا یہ خصوصی برتن تیار کیا گیا ہے۔ مرنے والے کے لواحقین اِس برتن پر نقش و نگار بھی بنا سکتے ہیں اور اپنے آخری پیغامات بھی اِس میں ڈال سکتے ہیں۔
تصویر: Passages International, Inc.
انسانی درخت
اس تھیلے میں لاش کو بالکل اُسی طرح سے رکھا جاتا ہے، جس طرح بچہ ماہ کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ یہ تصور ایک اطالوی ڈیزائنر نے پیش کیا۔ اس میں لاش ایک درخت کی غذا بنتی ہے۔ اطالوی حکومت نے ابھی تک مُردوں کو اس طرح سے ’دفنانے‘ کی اجازت نہیں دی اور اسے ’مستقبل کا ڈیزائن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔