1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: سوشل میڈیا قوانین

30 جون 2017

جرمنی میں اب سماجی ویب سائٹس کے ذریعے نفرت پھیلانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جا سکے گی۔ نئے سوشل میڈیا قانون میں صرف صارفین پر ہی نہیں بلکہ فیس بک اور ٹوئٹر پر بھی واضح ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں۔

Twitter Logo Symbolbild
تصویر: picture-alliance/H. Fohringer

جرمن پارلیمان نے جمعے کے روز جو نیا سوشل میڈیا قانون منظور کیا ہے، اُس کے ذریعے فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب جیسی ویب سائٹس پر لازم کیا گیا ہے کہ اگر اُن کا کوئی صارف کسی پوسٹ کے خلاف شکایت کرتا ہے تو اُنہیں اِس مواد کو چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر ویب سائٹ سے ہٹانا ہو گا۔ اس کے علاوہ مبہم تحریر یا پوسٹ ہٹانے کے لیے اِن ویب سائٹس کو سات دن کی مہلت دی گئی ہے۔ اس قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں کمپنی پر پچاس ملین یورو تک کا جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔

رواں برس جنوری اور فروری میں یوٹیوب نے ایسی نوے فیصد ویڈیوز اپنی ویب سائٹ سے ہٹائیں، جن کے بارے میں شکایات کی گئی تھیں۔ ٹویٹر نے صرف ایک فیصد جبکہ فیس بک نے ایسی انتالیس فیصد پوسٹ حذف کر دی تھیں۔

تصویر: Reuters/F. Bensch

دنیا بھر میں عوامیت پسندانہ اور شدت پسندانہ سوچ رکھنے والوں کی جانب سے سماجی ویب سائٹس کو اپنے نظریات کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کے بعد سے مختلف حلقوں کی جانب سے اس طرح کی قانون سازی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ جبکہ کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ یہ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن ہو گی۔ برلن کے چند مبصرین کہتے ہیں کہ اس قانون کے بارے میں ویسے بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا اور شاید اس میں اصلاحات لانے کی بھی ضرورت پڑے۔

ذرائع کے مطابق اس قانون کو رواں برس یکم اکتوبر سے نافذ کیا جا سکتا ہے اور  اس کا اطلاق صرف بڑی سماجی ویب سائٹس پر  ہو گا۔ اس سلسلے میں جو حد مقرر کی گئی ہے، اس کے تحت صرف اُنہی ویب سائٹ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جا سکے گی، جن کے صارفین کی تعداد تقریباً دو ملین ہو گی یا پھر جس کے خلاف سالانہ بنیادوں پر کم از کم ایک سو شکایتیں موصول ہوں گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسٹارٹ اپ کمپنیوں پر فی الحال یہ قانون لاگو نہیں ہو گا۔

تاہم یہ امر بالکل واضح ہے کہ اگر کوئی کمپنی جرمنی میں ’نفرت انگیزی‘ کا سہارا  لے کر تیزی سے کامیابی کی قدم چومنا چاہتی ہے تو اب اُسے بہت سوچ سمجھ کر اپنی پالیسیاں ترتیب دینا ہوں گی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں