جرمنی: سیاسی پناہ کے خواہش مند افراد کی تعداد میں کمی
26 دسمبر 2019
سال 2019 کے دوران جرمنی میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے دی جانے والی درخواستوں کی تعداد میں کمی تو آئی ہے تاہم پناہ کے خواہش مند افراد کے لیے جرمنی اب بھی یورپی یونین کا سب سے پسندیدہ ملک ہے۔
اشتہار
یورپی یونین کے دفتر شماریات یورو اسٹیٹ کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پر فنکے میڈیا گروپ اور روئٹرز ایجنسی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ جنوری سے نومبر 2019 ء کے درمیان ایک لاکھ تینتیس ہزار کے لگ بھگ افرا د نے سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے جرمن حکام کو درخواستیں دیں۔ 2018 ء کے اسی مدت کے مقابلے یہ تعداد 13فیصد کم ہے۔
تاہم تعداد میں کمی کے باوجود جرمنی سیاسی پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کے لیے اب بھی سب سے پسندیدہ ملک ہے۔ اس سال کے اوائل سے ستمبر کے اواخر تک جرمنی میں پناہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دینے والوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ گیارہ ہزار تھی، جو یورپی یونین کے ملکوں میں پناہ حاصل کرنے کے لیے مجموعی درخواستوں کا 23 فیصد ہے۔ اسی طرح سن 2018 اور سن 2017 میں یورپی یونین میں پناہ کے لیے درخواست دہندگان میں سے بالترتیب 28 فیصد اور31 فیصد نے جرمنی میں اپنی درخواستیں جمع کرائی تھیں۔
فنکے میڈیا کے ذریعہ حاصل کردہ یہ اعدادوشمار وفاقی دفتر برائے تارکین وطن اور پناہ گزین (بی اے ایم ایف) کے سربراہ ہنس ایکارڈ سومرکی نومبر میں کی گئی پیشن گوئی کی تصدیق کرتے ہیں۔ سومر نے روزنامہ بلڈ ام سونٹاگ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا ”مجھے توقع ہے کہ اس سال کے آخر تک پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار سے ایک لاکھ پینتالیس ہزار کے درمیان رہے گی۔ اس طرح یہ 2018 ء سے کچھ کم ہی رہے گا۔"
یہ اعدادو شمار ایسے وقت سامنے آئے ہیں، جب دو روز قبل ہی جرمن وفاقی پولیس کے سربراہ ڈیٹر رومان نے جرمنی میں ملک بدری کے نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کے بقول حکومت کو سیاسی پناہ کی درخواستوں پر کام کرنے کے لیے مزید مراکز تعمیر کرنے چاہییں۔
مہاجرین کے مبینہ جرائم پر دائیں بازو کا رد عمل شدید تر
جرمنی میں حالیہ کچھ عرصے میں ایک طرف جہاں مہاجرین کی طرف سے مبینہ جرائم کی خبریں سامنے آ رہی ہیں وہیں ملک میں انتہائی دائیں بازو کی جانب سے ان کے خلاف جذبات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے یہ پکچر گیلری۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
جرمن شہری کی ہلاکت اور مظاہروں کا آغاز
کیمنٹس میں چھبیس اگست سے انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد نے مظاہروں کا سلسلہ اُس وقت شروع کیا تھا جب ایک جرمن شہری کو سیاسی پناہ کے دو متلاشیوں نے ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Jan Woitas/dpa/picture alliance
مظاہروں کے خلاف مظاہرے
اگرچہ رواں ماہ کی سات تاریخ کو کیمنٹس میں رائٹ ونگ گروپوں کے ارکان نے بھرپور مہاجرین مخالف مظاہرے کیے تاہم اگلے ہی روز کیمنٹس کے شہریوں نے بھی بڑی تعداد میں مہاجرین مخالف مظاہروں کے خلاف مظاہرے کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
مسائل کی ماں مہاجرت
انہی مظاہروں کے درمیان جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی جانب سے بھی پناہ گزینوں کی مخالفت میں ایک تنقیدی بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ مہاجرت ہی تمام مسائل کی ماں ہے۔ زیہوفر نے کیمنٹس میں رائٹ وِنگ کی جانب سے کیے گئے مظاہروں پر تنقید بھی نہیں کی۔
تصویر: Imago/Sven Simon/F. Hoermann
میا وی کے قاتل کو سزائے قید
ستمبر کی تین تاریخ کو جنوب مغربی جرمن شہر لنڈاؤ میں ایک جرمن عدالت نے عبدل ڈی نامی ایک افغان تارک وطن کو پندرہ سالہ جرمن لڑکی میا وی کو قتل کرنے کے جرم میں ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ میا وی کی ہلاکت پر بھی اُس کے شہر کانڈل میں تارکین وطن کے خلاف مظاہرے کیے گئے تھے۔
تصویر: DW/A. Prange
ایک اور افغان مہاجر جیل میں
رواں ہفتے کے اختتام پر جرمن شہر ڈارم شٹڈ کی ایک عدالت نے ایک اور افغان مہاجر کو اپنی سترہ سالہ سابقہ گرل فرینڈ کو چاقو سے شدید زخمی کرنے کے جرم میں سات سال جیل کی سزا سنائی تھی۔ نو عمر افغان پناہ گزین پر الزام تھا کہ اس نے سن 2017 میں کرسمس سے قبل اپنی سابقہ گرل فرینڈ پر چاقو سے حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
کوئتھن، جرمن نوجوان کی ہلاکت
ابھی کیمنٹس شہر میں تناؤ پوری طرح کم نہ ہوا تھا کہ جرمن ریاست سیکسنی اَن ہالٹ کے شہر کوئتھن میں ایک بائیس سالہ جرمن نوجوان کی دو افغان مہاجرین کے ہاتھوں مبینہ قتل نے ہلچل مچا دی۔ ریاست کے وزیر داخلہ ہولگر شٹالک نیخت نے شہریوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Hein
کوئتھن میں مظاہرے
مقامی پولیس کے مطابق ’کیمنٹس پرو‘ گروہ کی طرف سے سوشل میڈیا پر کوئتھن میں مظاہرے کی کال دی گئی جس پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس مظاہرے میں پچیس ہزار افراد شریک ہوئے۔ جس میں چار سو سے پانچ سو افراد کا تعلق انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد سے تھا۔