1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی سے افغانوں کی ملک بدری: کوئی فیصلہ نہ کرنا اچھا فیصلہ

شمشیر حیدر فلوریان وائیگنڈ
11 اگست 2017

جرمن حکومت کے مطابق افغانستان میں اب بھی محفوظ علاقے موجود ہیں اس لیے ’جرائم پیشہ اور خطرناک‘ افغان شہریوں کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ پڑھیے ڈی ڈبلیو دری اور پشتو کے سربراہ فلوریان وائیگنڈ کا تبصرہ:

Demonstration Köln gegen Abschiebung nach Afghanistan Menschenrechte
تصویر: DW/R.Shirmohammadil

کیا افغانستان اتنا محفوظ ہے کہ جرمنی سے افغان تارکین وطن کو ملک بدر کر کے واپس بھیجا جا سکے؟ اس سوال کے بارے میں برلن حکومت کا میڈیا کو اکثر دیا جانے والا جواب اگرچہ محتاط سفارتی الفاظ میں اور کچھ مفصل ہوتا ہے تاہم اس کا خلاصہ یہی ہوتا ہے: ’جی ہاں، لیکن نہیں‘۔ اس بارے میں فیصلہ سازی کرنے والے جرمن سیاست دان بھی دو ٹوک فیصلہ کرنے سے ہچکچاتے دکھائی دیتے ہیں۔

میرکل کی جماعت نے افغان مہاجرین کی ملک بدری کی تائید کر دی

اسمگلروں نے پچاس مہاجرین کو دانستاﹰ ڈبو دیا، آئی او ایم

افغانستان کی سکیورٹی صورت حال کا از سر نو جائزہ لینے کے لیے جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ اور وفاقی وزارت خارجہ کے ماہرین کو دو ماہ سے زیادہ وقت لگا۔ سکیورٹی صورت حال کا جائزہ لینے کا فیصلہ مئی کے اواخر میں کابل میں جرمن سفارت خانے کے قریب پیش آنے والے خونریز دہشت گردانہ حملے کے بعد کیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد برلن حکومت نے جرمنی سے افغان شہریوں کی ملک بدری کا عمل اس وقت تک روک دینے کا اعلان کیا تھا، جب تک کہ افغانستان کی سکیورٹی صورت حال کا دوبارہ جائزہ نہیں لیا جاتا۔

افغانستان میں امن و امان کی صورت حال کا دوبارہ جائزہ لینے کے بعد جمعرات دس اگست کے روز بتایا گیا کہ افغان پناہ گزینوں کو جرمنی سے ملک بدر کر کے واپس افغانستان بھیجنے کے حوالے سے برلن حکومت کی ’سابقہ پالیسی میں رد و بدل کی کوئی ضرورت نہیں‘ ہے۔

یوں انفرادی کیسوں میں افغان شہریوں کو جرمنی سے واپس ان کے وطن بھیجے جانے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔

برلن حکومت نے دفتر خارجہ کے رپورٹ کے بنیاد پر یہ فیصلہ تو کر لیا ہے لیکن اس رپورٹ کے مندرجات منظر عام پر نہیں لائے گئے۔ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ فیصلہ کس بنیاد پر کیا گیا ہے۔ اگر یہ رپورٹ افغانستان میں صورت حال کی حقیقی عکاسی کرتی ہے تو چند خوفناک حقائق سے انکار ممکن نہیں۔

اب تک ’محفوظ‘ قرار دیے گئے افغان دارالحکومت کابل میں سال رواں کی پہلی ششماہی کے دوران مختلف حملوں میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔ کابل افغانستان میں ’دہشت گردانہ حملوں کا مرکز‘ بنا ہوا ہے۔ اسی طرح ’محفوظ‘ قرار دیے گئے افغان شہر ہرات میں بھی گزشتہ ہفتے پر امن طور پر نماز کے لیے جمع تیس شیعہ مسلمان ہلاک کر دیے گئے تھے۔ اور پھر گزشتہ ویک اینڈ پر داعش اور طالبان کی پہلی مشترکہ دہشت گردانہ کارروائی میں عورتوں اور بچوں سمیت پچاس دیہاتیوں کا قتل عام بھی کیا گیا۔ یہ صورت حال افغانستان کے شمالی علاقوں کی ہے جنہیں جرمن حکومت دیگر حصوں کی نسبت ’محفوظ‘ سمجھتی ہے۔

فلوریان وائیگنڈ ڈی ڈبلیو کے شعبہ دری اور پشتو کے سربراہ ہیں

افغانستان بھی بیرون ملک جرائم میں ملوث اپنے شہریوں کی وطن واپسی نہیں چاہتا۔ جرمنی میں مقیم افغان مہاجرین میں بھی یہ رائے پائی جاتی ہے کہ جرائم میں ملوث ان کے ہم وطن افراد کو واپس اس جنگ زدہ ملک بھیج دینا چاہیے۔ لیکن جرمن قوانین کے تحت تارکین وطن کو ملک بدر کر کے کسی جنگ زدہ خطے میں نہیں بھیجا جا سکتا۔

اسی وجہ سے وفاقی جرمن حکومت کے لیے پورے افغانستان کو ’جنگ زدہ‘ قرار دینا مشکل ہے۔ کیوں کہ ایسی صورت میں جرائم پیشہ اور خطرناک سمجھے جانے والے افغان تارکین وطن بھی جرمنی میں پر امن طور پر مقیم اپنے ہم وطن مہاجرین کے ساتھ آئندہ یہیں رہیں گے۔

لہٰذا اگر جرمن حکومت افغان شہریوں کی جزوی ملک بدریوں کے فیصلے پر قائم رہتی ہے لیکن واضح طور پر یہ نہیں کہتی کہ آیا پورا افغانستان ایک محفوظ ملک ہے یا غیر محفوظ، تو اس طرح کوئی واضح فیصلہ نہ کرنا بھی دراصل ایک اچھا فیصلہ ہی ہے۔

جرمنی سے مہاجرین کو ملک بدر کر کے یونان بھیجا جائے گا، یونان

یونان سے ترکی ملک بدر ہونے والوں میں پاکستانی سرفہرست

مال بردار ٹرینوں میں چھپے مہاجرین کیسے پکڑے جاتے ہیں؟

01:50

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں