جرمنی سے ڈی پورٹ کیے گئے چھیالیس مزید افغان مہاجرین وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ افغان حکام نے بتایا ہے کہ یہ مہاجرین ایک طیارے کے ذریعے بدھ کے دن کابل ایئر پورٹ پہنچے۔ افغان مہاجرین کی وطن واپسی پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے کابل ایئر پورٹ کے حکام کے حوالے سے بدھ کے دن بتایا کہ افغان مہاجرین کا ایک اور گروپ واپس پہنچ گیا ہے۔ جرمنی کابل حکومت کے ساتھ ایک ڈیل کے تحت ایسے مہاجرین کو افغانستان واپس روانہ کر رہا ہے، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔ ایسے مہاجرین اور تارکین وطن کی واپسی کا سلسلہ دسمبر سن دو ہزار سولہ میں شروع کیا گیا تھا۔
ڈی پی اے نے بتایا ہے کہ بدھ کے دن کابل پہنچے والے مہاجرین کا یہ پندرہواں گروپ تھا۔ اب تک ایسے تقریبا ساڑھے تین سو افغان مہاجرین کو زبردستی واپس بھیجا جا چکا ہے، جو جرمنی میں پناہ کے حق دار قرار نہیں دیے گئے تھے۔
تاہم انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن کی صورتحال خستہ ہے اور ان حالات میں افغان مہاجرین کو وطن واپس روانہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ طالبان کی باغی تحریک کے علاوہ اب افغانستان میں جہادی گروہ اسلامک اسٹیٹ بھی فعال ہو چکا ہے، جو گزشتہ کچھ عرصے سے کئی حملے کر چکا ہے۔
’ملک بدری روکنے والی‘ ایلین
02:14
افغانستان میں طالبان کے حالیہ حملوں کی وجہ سے امن کی صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔ طالبان باغیوں نے صوبہ غزنی اور فریاب میں نئے حملے کیے ہیں، جن کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ اس صورتحال میں انسانی حقوق کے کارکنان نے مطالبہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل روک دیا جائے۔
گزشتہ ماہ جرمنی سے واپس بھیجے جانے والے ایک افغان مہاجر نے خودکشی کر لی تھی۔ وہ آٹھ برس تک جرمنی میں مقیم رہا تھا تاہم قانونی تقاضے پورے نہ کرنے کی وجہ سے اسے زبردستی واپس افغانستان روانہ کر دیا گیا تھا۔ ایسے خدشات ہیں کہ جرمنی سے ملک بدر کیے جانے والے افغان مہاجرین ملک پہنچ کر نئی مشکلات میں گھر سکتے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہےکہ افغانستان کا زیادہ تر حصہ اب بھی افراتفری اور تشدد کی زد میں ہے اور اس معاہدے کے نتیجے میں واپس بھیجے جانے والے افغان مہاجرین کی زندگیوں کو لاحق خطرات کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔
ع ب / ع ا / ڈی پی اے
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔