1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

جرمنی سے انیس پاکستانی ملک بدر، وبا کا خیال نہ رکھا گیا

16 جولائی 2020

جرمنی سے انیس پاکستانیوں کو ملک بدر کر کے اسلام آباد بھیج دیا گیا۔ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد سے جرمنی سے کسی بھی ملک سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی لیکن ناکام تارکین وطن کی ملک بدری کی یہ پہلی کارروائی ہے۔

Flughafen Frankfurt
تصویر: Getty Images/T. Lohnes

جرمن اخبار ’زوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ میں جمعرات سولہ جولائی کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جرمن شہر فرینکفرٹ کے ہوائی اڈے سے دو روز قبل منگل چودہ جولائی کو انیس پاکستانی شہریوں کو ایک طیارے کے ذریعے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد روانہ کر دیا گیا۔ جرمن پولیس نے اس اخبار کو بتایا کہ ملک بدر کیے گئے پاکستانی پناہ گزینوں میں سے زیادہ تر جرمن صوبوں باویریا اور باڈن ووٹمبرگ میں رہائش پذیر تھے۔

مزید پڑھیے:جرمنی: ملک بدری کے فيصلوں ميں اضافہ، لیکن عملدرآمد کم

جریدے کے مطابق یونان سے جرمنی پہنچنے والے اس طیارے میں پہلے ہی سے دس دیگر پاکستانی شہری بھی موجود تھے۔ ان پاکستانی پناہ گزینوں کو ان کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہونے بعد  یونان نے ملک بدر کیا تھا۔ یوں اس طیارے کے ذریعے انتیس پاکستانیوں کو ملک بدر کیا گیا۔

کورنا وائرس کی وبا کے دوران ملک بدری

پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے برلن حکومت کی اس کارروائی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ملک بدری کی ’ممانعت کا خاتمہ‘  قرار دیا ہے۔ باویریا میں پناہ گزینوں کی مدد کرنے والی کلیسائی تنظیم ماٹیئو سے منسلک اشٹیفان رائشل نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر جرمنی اب ملک بدر کیے گئے ان افراد کی صحت کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا اور حکام نے اس طیارے میں ایسے تارکین وطن کے ساتھ سفر کرنے والے جرمن پولیس اہلکاروں اور طیارے کے عملے کی صحت کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔

تصویر: DW/K. Traill

ماحول پسندوں کی گرین پارٹی نے بھی اس ملک بدری کو ’غیر ذمہ دارانہ‘  قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران جرمنی بھر میں ہر قسم کی ملک بدری کی سرگرمیوں کا معطل کیا جانا لازمی تھا۔

یہ بھی پڑھیے:آسٹریا افغانوں کو دوبارہ جنگ اور دہشت کی جانب لوٹا رہا ہے

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا کہ صوبائی حکومتیں مشکل حالات میں بھی ملک بدری کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہیں۔ جرمنی سے پناہ گزینوں کی مخصوص حالات میں ملک  بدری کے عمل میں وفاقی حکومت بھی صوبائی حکومتوں کے ساتھ تعاون کرتی ہے۔

پناہ گزینوں کی وطن واپسی میں کمی

یورپ میں مارچ سے شروع ہونے والی کورونا وائرس کی وبا کے باعث سفری پابندیوں اور کمرشل پروازوں کی محدود تعداد کی وجہ سے بھی  تارکین وطن کی ملک بدری کے واقعات میں تیزی سے کمی ہوئی تھی۔ تاہم جرمنی نے پناہ کے ناکام درخواست دہندگان کی ان کے آبائی غیر یورپی ممالک میں ملک بدری کبھی بھی باقاعدہ طور پر معطل نہیں کی تھی۔

تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler

کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے ڈبلن معاہدے کے تحت صرف یورپی یونین کے رکن ممالک میں منتقلی عارضی طور پر روکی گئی تھی۔ ڈبلن معاہدے کے مطابق یورپی یونین کی حدود میں پناہ کی درخواست جمع کرانے والے مہاجرین کو واپس اسی ملک میں بھیجنا ضروری ہوتا ہے، جہاں پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کے طور پر ان کا اولین اندراج ہوا ہو اور انہوں نے اپنی ابتدائی درخواست بھی دی ہو۔ سن 2015 اور 2016 کے دوران مہاجرین سے متعلق غیر معمولی صورت حال کے باعث ڈبلن معاہدے پر  عمل درآمد نہیں ہو سکا تھا۔

ع آ / م م (ڈی پی اے، ای پی ڈی)

مہاجرین کے لیے چرچ میں پناہ

01:40

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں