جرمنی سے ایک بار پھر پاکستانی تارکین وطن کی اجتماعی ملک بدری
19 اگست 2020
جرمنی سے ایک بار پھر درجنوں پاکستانی تارکین وطن کو اجتماعی طور پر ملک بدر کر دیا گیا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا کے باوجود میونخ سے تینتیس پاکستانی شہریوں کو لے کر جانے والی پرواز اسلام آباد پہنچ گئی ہے۔
اشتہار
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے بدھ انیس اگست کے روز بتایا کہ جرمنی سے 33 پاکستانی شہریوں کو لے کر جانے والا طیارہ اسلام آباد میں اتر گیا ہے۔ ان پاکستانیوں کی وطن واپسی کی پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے بھی تصدیق کر دی ہے۔
جرمنی: سات ہزار سے زائد پاکستانیوں کی ملک بدری طے
جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی ڈیٹا بیس کے مطابق ملک کی سولہ وفاقی ریاستوں سے سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو لازمی ملک بدر کیا جانا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس صوبے سے کتنے پاکستانی اس فہرست میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
باڈن ورٹمبرگ
وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ سے سن 2017 کے اختتام تک ساڑھے پچیس ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ ان میں 1803 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
باویریا
جرمن صوبے باویریا میں ایسے غیر ملکی شہریوں کی تعداد تئیس ہزار سات سو بنتی ہے، جنہیں جرمنی سے ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں 1280 پاکستانی بھی شامل ہیں، جو مجموعی تعداد کا 5.4 فیصد ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Anspach
برلن
وفاقی جرمن دارالحکومت کو شہری ریاست کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ برلن سے قریب سترہ ہزار افراد کو لازماﹰ ملک بدر کیا جانا ہے جن میں تین سو سے زائد پاکستانی شہری شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
برانڈنبرگ
اس جرمن صوبے میں ایسے غیرملکیوں کی تعداد قریب سات ہزار بنتی ہے، جنہیں لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں سے سات فیصد (471) کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Oliver Mehlis
ہیسے
وفاقی صوبے ہیسے سے بھی قریب گیارہ ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا ہے جن میں سے 1178 کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
جرمنی میں سب سے زیادہ آبادی والے اس صوبے سے بھی 71 ہزار غیر ملکیوں کو لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں افغان شہریوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہے۔ پاکستانی شہری اس حوالے سے پہلے پانچ ممالک میں شامل نہیں، لیکن ان کی تعداد بھی ایک ہزار سے زائد بنتی ہے۔
تصویر: imago/epa/S. Backhaus
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
رائن لینڈ پلاٹینیٹ سے ساڑھے آٹھ ہزار غیر ملکی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں پانچ سو سے زائد پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
سیکسنی
جرمن صوبے سیکسنی میں ساڑھے گیارہ ہزار غیر ملکی ایسے ہیں، جن کی ملک بدری طے ہے۔ ان میں سے 954 پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دیگر صوبے
مجموعی طور پر سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی ملک بدری طے ہے۔ دیگر آٹھ جرمن وفاقی ریاستوں میں پاکستانیوں کی تعداد پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں، اس لیے ان کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
9 تصاویر1 | 9
یہ طیارہ جنوبی جرمن صوبے باویریا کے دارالحکومت میونخ سے کل منگل کو اپنے سفر پر روانہ ہوا تھا اور آج بدھ کو صبح سویرے یہ پرواز پاکستانی دارالحکومت کے ہوائی اڈے پر لینڈ کر گئی۔
میونخ ایئر پورٹ پر جرمنی کی وفاقی پولیس نے بھی پاکستانی باشندوں کی اس اجتماعی ملک بدری کی تصدیق کر دی ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق جو تقریباﹰ تین درجن شہری واپس وطن پہنچے ہیں، وہ سب کے سب مرد ہیں
۔ ان میں سے 24 جرمنی میں مقیم تھے، سات ہمسایہ ملک آسٹریا میں اور باقی دو کو جرمنی کے ایک اور ہمسایہ ملک پولینڈ سے حکام نے ملک بدر کیا تھا۔ ان سب کو میونخ میں اکٹھا کر کے اسلام آباد بھجوایا گیا۔
ملک بدریوں میں التوا ختم
جرمنی میں کورونا وائرس کی وبا کے عروج کے دنوں میں حکام نے پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کا عمل مؤخر کر دیا تھا، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔ چند ماہ کے تعطل کے بعد یہ عمل ایک ماہ پہلے اس وقت بحال کیا گیا تھا، جب کافی زیادہ تعداد میں پاکستانیوں کو ملک بدر کیا گیا تھا۔
جولائی میں جرمنی سے ملک بدر کیے گئے یہ غیر ملکی بھی پاکستانی تھے اور جرمنی سے روانگی کے بعد ان کو لے کر جانے والی پرواز یونانی دارالحکومت ایتھنز میں رکی تھی۔ وہاں سے مزید پاکستانی شہریوں کو لے کر یہ طیارہ پاکستان گیا تھا۔
غیر یورپی ممالک میں ملک بدری
جرمن حکام کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے باعث جرمنی سے پناہ کے ناکام درخواست دہندگان کی ان کے غیر یورپی آبائی ممالک میں جبری واپسی کا عمل دراصل کبھی باقاعدہ معطل نہیں گیا تھا بلکہ اس میں صرف وقفہ آ گیا تھا۔
مجموعی طور پر جرمنی سے پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کی ان کے غیر یورپی آبائی ممالک میں ملک بدری اس سال مارچ کے مہینے سے اب تک کافی کمی آ چکی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پہلے کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں مسافر پروازیں بھی بند تھیں اور کئی ممالک نے اس مہلک وائرس سے بچاؤ کی کوششوں کو بنیاد بنا کر اپنے ہی شہریوں کو واپس قبول کرنے سے انکار بھی کر دیا تھا۔
م م / ک م (ڈی پی اے)
جرمنی سے پاکستانیوں کی ملک بدریاں: کب، کتنے، کس قیمت پر؟
گزشتہ برس جرمنی سے بائیس ہزار افراد کو ملک بدر کیا گیا جن میں سے قریب نو ہزار کو خصوصی پروازوں کے ذریعے وطن واپس بھیجا گیا۔ ان میں کتنے پاکستانی تھے اور انہیں کب اور کس قیمت پر ملک بدر کیا گیا؟ جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Seeger
26 جنوری 2017
اس دن جرمن شہر ہینوور کے ہوائی اڈے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے سات پاکستانی تارکین وطن کو واپس پاکستان بھیجا گیا۔ اس فلائٹ میں چوبیس جرمن اہلکار بھی پاکستانی تارکین وطن کے ہمراہ تھے اور پرواز پر قریب سینتالیس ہزار یورو خرچ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Maurer
7 مارچ 2017
ہینوور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے اس روز خصوصی پرواز کے ذریعے چودہ پاکستانی ملک بدر ہوئے۔ ان کے ہمراہ وفاقی جرمن پولیس اور دیگر وفاقی اداروں کے اٹھائیس اہلکار بھی تھے جب کہ ملک بدری کے لیے اس فلائٹ کا خرچہ پینتالیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: Imago/epd
29 مارچ 2017
یونانی حکومت کے زیر انتظام ملک بدری کی یہ خصوصی پرواز بھی ہینوور ہی سے روانہ ہوئی جس کے ذریعے پانچ پاکستانی شہریوں کو وطن واپس بھیجا گیا۔ اس پرواز میں اٹھارہ جرمن اہلکار بھی سوار تھے اور فلائٹ کا خرچہ ساڑھے بیالیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
25 اپریل 2017
اس روز بھی خصوصی پرواز ہینوور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے روانہ ہوئی جس کے ذریعے تین پاکستانی تارکین وطن کو ملک واپس بھیجا گیا۔ ان تارکین وطن کے ساتھ وفاقی جرمن پولیس کے گیارہ اہلکار بھی پاکستان گئے اور پرواز پر خرچہ اڑتیس ہزار یورو آیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P.Seeger
7 جون 2017
جرمن دارالحکومت برلن کے شونے فیلڈ ہوائی اڈے سے روانہ ہونے والی اس خصوصی پرواز کے ذریعے چودہ پاکستانی تارکین وطن ملک بدر کیے گئے۔ پرواز میں 37 جرمن اہلکار بھی موجود تھے اور خرچہ تیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/B. Wüstneck
19 جولائی 2017
تارکین وطن کی اجتماعی ملک بدری کی اس خصوصی پرواز کا انتظام بھی ایتھنز حکومت نے کیا تھا اور اس کے ذریعے نو پاکستانی پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا گیا۔ ہینوور ہی سے اکیس اہلکاروں اور نو تارکین وطن کو پاکستان لے جانے والی اس فلائٹ پر برلن حکومت کے ساڑھے سینتیس ہزار یورو خرچ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
5 ستمبر 2017
آسٹرین حکومت کے زیر انتظام یہ پرواز ہینوور کے ہوائی اڈے سے ایک پاکستانی شہری کو وطن واپس لے گئی جس کے ہمراہ چار جرمن اہلکار بھی تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Willnow
20 ستمبر 2017
اسی ماہ کی بیس تاریخ کو ہینوور ہی سے ایک خصوصی پرواز گیارہ تارکین وطن کو واپس پاکستان لے گئی اور ان کے ہمراہ بیس جرمن اہلکار بھی تھے۔ اس پرواز کے لیے جرمن حکومت نے ساڑھے سینتیس ہزار یور خرچ کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
7 نومبر 2017
اس روز بھی آسٹرین حکومت کے زیر انتظام ایک خصوصی پرواز میں جرمن شہر ہینوور سے پانچ پاکستانیوں کو ملک بدر کیا گیا۔ بیس جرمن اہلکار بھی ان کے ساتھ تھے اور پرواز پر خرچہ تیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Balk
6 دسمبر 2017
برلن سے روانہ ہونے والی اس خصوصی پرواز کے ذریعے 22 پاکستانی پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا گیا۔ وفاقی جرمن پولیس کے 83 اہلکار انہیں پاکستان تک پہنچانے گئے۔ پرواز کا انتظام برلن حکومت نے کیا تھا جس پر ڈیڑھ لاکھ یورو خرچ ہوئے۔