ترک وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ جرمنی اگر چاہتا ہے تو وہ ترک ایئر بیس سے اپنے فوجی واپس بلا سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ ان جرمن فوجیوں کی ترکی میں تعیناتی کی خاطر انقرہ حکومت برلن سے بھیک نہیں مانگے گی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش اولو کے حوالے سے بتایا ہے کہ شمالی ترکی میں واقع اینجرلیک ایئر بیس سے اپنے فوجی واپس بلا سکتا ہے۔ انہوں نے استبول میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ انقرہ ان فوجیوں کی ترکی میں تعیناتی کے بارے میں برلن حکومت سے بھیک نہیں مانگے گا۔
اس فوجی اڈے پر جرمنی کے دو سو ستر فوجی تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی کے دو ٹورناڈو طیارے بھی وہاں موجود ہیں۔ یہ جرمن مشن اینجرلیک میں موجود امریکی فوجی دستوں کے ساتھ مل کر انتہا پسند تنظیم داعش کے خلاف جاری عالمی کارروائی کا حصہ ہے۔
انقرہ حکومت کی طرف سے ایک جرمن پارلیمانی وفد کو اینجرلیک ایئر بیس پر تعینات جرمن فوجیوں سے ملاقات کی اجازت نہ دینے پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے عندیہ دیا ہے کہ برلن حکومت ترکی میں موجود جرمن فوجیوں کو واپس بلا سکتی ہے۔ اس فوجی چھاؤنی میں امریکی فوجی بھی تعینات ہیں، جو داعش کے خلاف جاری عالمی کارروائی میں شریک ہیں۔
ایسی خبریں بھی ہیں کہ جرمنی ان فوجیوں کو ترکی سے واپس بلا کر اردن، قبرض یا پھر کویت میں تعینات کر سکتا ہے۔ تاہم خبر رساں ادارے اے اپی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمنی نے اس کشیدگی کے خاتمے کی خاطر امریکی مدد بھی مانگ لی ہے۔
داعش کے خلاف برسر پیکار ایران کی کُرد حسینائیں
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
10 تصاویر1 | 10
این ڈی وی ٹیلی وژن سے گفتگو میں ترک وزیر خارجہ چاؤش آولو نے کہا، ’’یہ جرمنی کا انتخاب ہے۔ ہم بھیک نہیں مانگیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اگر جرمن فوجی واپس جانا چاہتے ہیں تو ہم انہیں خدا حافظ کہیں گے۔ انہوں نے ایسے الزامات کو مسترد کر دیا کہ ترکی اس تمام معاملے میں جرمنی کو بلیک میل کرنے کی کوشش میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی کو ترکی ساتھ دوستانہ برتاؤ کرنا چاہیے نہ کہ مالکوں والا۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی طرف سے اپنے رکن ملک ترکی کی فضائی حدود کی حفاظت کے لیے اب تک کیے گئے اقدامات ناکافی ثابت ہوئے ہیں۔ یہ بات ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولُو نے آج جمعرات کے روز کہی۔
ترک وزیر نے یہ بات برسلز میں ہونے والے نیٹو کے ایک اہم اجلاس سے صرف چند روز قبل اپنے ایک انٹرویو میں کہی۔ نیٹو کا یہ اجلاس اگلے ہفتے ہو گا۔ نیٹو کے رکن ملک کے طور پر ترکی کے دیگر رکن ریاستوں خاص طور پر جرمنی سے تعلقات حالیہ مہینوں میں کافی کشیدہ ہو چکے ہیں۔