جرمنی سے غیر ملکیوں کی ملک بدری، ایک سال میں پچاس فیصد اضافہ
14 اگست 2020
جرمنی سے گزشتہ برس مجموعی طور پر گیارہ ہزار سے زائد غیر ملکیوں کو ہمیشہ کے لیے ملک بدر کر دیا گیا۔ یہ تعداد ایک سال پہلے کے مقابلے میں پچاس فیصد زیادہ تھی۔ ان میں مستقل رہائشی پرمٹ کے حامل غیر ملکی بھی شامل تھے۔
اشتہار
ان اعداد و شمار کی دو مختلف ذرائع سے تصدیق بھی ہو گئی ہے۔ ان میں سے ایک شمالی جرمن شہر اوسنابروک سے شائع ہونے والا ایک اخبار ہے، جس نے یہ خبر بدھ بارہ اگست کو شائع کی تھی۔ دوسرا ذریعہ خود برلن میں وفاقی جرمن حکومت ہے، جس نے ان حقائق کی ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت 'دی لِنکے‘ کے حزب کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں تصدیق کر دی۔
ایک سال میں پچاس فیصد اضافہ
جرمن وزارت داخلہ کے مطابق 2019ء میں جرمنی سے مجموعی طور پر 11081 غیر ملکیوں کو اس طرح ملک بدر کیا گیا کہ اب وہ دوبارہ جرمنی میں داخل نہیں ہو سکتے۔ یہ تعداد 2018ء کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ تھی۔ دو سال قبل یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی سے کُل 7408 غیر ملکیوں کو ملک بدر کر کے ان کے آبائی ممالک میں بھیجا گیا تھا۔
جرمن قوانین کی رو سے ہر ایسے غیر ملکی کو، جسے عوامی سلامتی اور نظم و ضبط کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہو اور چاہے اس کے پاس جرمنی میں مستقل قیام کا رہائشی پرمٹ بھی ہو، جرمنی بدر کیا جا سکتا ہے۔ ایسے غیر ملکیوں کو جرمنی سے جبراﹰ ان کے آبائی ممالک میں بھیج دیا جاتا ہے۔
سب سے زیادہ تعداد کن ممالک کے شہریوں کی؟
گزشتہ برس جرمنی سے جن غیر ملکیوں کو حکام نے ملک بدر کیا، ان میں ایسے بھی تھے، جو تارکین وطن یا پناہ کے متلاشی تھے، یا جن کی درخواستیں ابھی التوا میں تھیں اور ایسے بھی جنہیں اس ملک میں مستقل قیام کے پرمٹ بھی جاری کیے جا چکے تھے۔
ان غیر ملکیوں میں سب سے زیادہ تعداد یوکرائن، البانیہ اور سربیا کے شہریوں کی تھی۔ 2019ء میں جرمنی سے یوکرائن کے 1252، البانیہ کے 1220 اور سربیا کے 828 شہریوں کو ملک بدر کیا گیا۔ یہ سارے ہی غیر ملکی یورپی یونین سے باہر مگر صرف مختلف یورپی ریاستوں کے شہری نہیں تھے۔ ان میں بہت بڑی تعداد میں مختلف افریقی ممالک، عرب ریاستوں اور ایشیا میں پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک کے بہت سے شہری بھی شامل تھے۔
ملک بدریاں کہاں سے زیادہ؟
جرمن وزارت داخلہ کے مطابق پچھلے سال جن تقریباﹰ گیارہ ہزار ایک سو غیر ملکیوں کو جرمنی بدر کیا گیا، ان کی سب سے بڑی تعداد جنوبی صوبے باڈن ورٹمبرگ میں رہائش پذیر تھی۔ باڈن ورٹمبرگ جرمنی کا وہ صوبہ ہے، جہاں غیر ملکیوں سے متعلقہ امور کے نگران صوبائی محکمے کی طرف سے سب سے زیادہ سختی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں کا تعلق کن ممالک سے؟
وفاقی جرمن دفتر روزگار کے مطابق جرمنی میں کام کرنے والے بارہ فیصد افراد غیر ملکی ہیں۔ گزشتہ برس نومبر تک ملک میں چالیس لاکھ اٹھاون ہزار غیر ملکی شہری برسر روزگار تھے۔ ان ممالک پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں:
تصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt
1۔ ترکی
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں میں سے سب سے زیادہ افراد کا تعلق ترکی سے ہے۔ ایسے ترک باشندوں کی تعداد 5 لاکھ 47 ہزار بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
2۔ پولینڈ
یورپی ملک پولینڈ سے تعلق رکھنے والے 4 لاکھ 33 ہزار افراد گزشتہ برس نومبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں برسر روزگار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
3۔ رومانیہ
رومانیہ سے تعلق رکھنے والے 3 لاکھ 66 ہزار افراد جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
تصویر: AP
4۔ اٹلی
یورپی یونین کے رکن ملک اٹلی کے بھی 2 لاکھ 68 ہزار شہری جرمنی میں برسر روزگار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPHOTO
5۔ کروشیا
یورپی ملک کروشیا کے قریب 1 لاکھ 87 ہزار شہری جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Gerten
6۔ یونان
یورپی یونین کے رکن ملک یونان کے قریب 1 لاکھ 49 ہزار باشندے جرمنی میں برسر روزگار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
7۔ بلغاریہ
جرمنی میں ملازمت کرنے والے بلغاریہ کے شہریوں کی تعداد بھی 1 لاکھ 34 ہزار کے قریب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
8۔ شام
شامی شہریوں کی بڑی تعداد حالیہ برسوں کے دوران بطور مہاجر جرمنی پہنچی تھی۔ ان میں سے قریب 1 لاکھ 7 ہزار شامی باشندے اب روزگار کی جرمن منڈی تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kögel
9۔ ہنگری
مہاجرین کے بارے میں سخت موقف رکھنے والے ملک ہنگری کے 1 لاکھ 6 ہزار شہری جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
جرمنی میں کام کرنے والے روسی شہریوں کی تعداد 84 ہزار ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt
17۔ افغانستان
شامی مہاجرین کے بعد پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والوں میں افغان شہری سب سے نمایاں ہیں۔ جرمنی میں کام کرنے والے افغان شہریوں کی مجموعی تعداد 56 ہزار بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-U. Koch
19۔ بھارت
بھارتی شہری اس اعتبار سے انیسویں نمبر پر ہیں اور جرمنی میں کام کرنے والے بھارتیوں کی مجموعی تعداد 46 ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: Bundesverband Deutsche Startups e.V.
27۔ پاکستان
نومبر 2018 تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں برسر روزگار پاکستانی شہریوں کی تعداد 22435 بنتی ہے۔ ان پاکستانی شہریوں میں قریب دو ہزار خواتین بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
13 تصاویر1 | 13
اس لیے کہ وہاں امن عامہ کے لیے خطرہ بن جانے والے کسی بھی غیر ملکی کی موجودگی کو برداشت کرنے کا رجحان کم ہے۔ اس جنوب مغربی جرمن صوبے سے 2019ء میں 3540 غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا گیا۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا رہا، جہاں سے حکام نے 1762 غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا۔ جنوبی صوبے باویریا سے پچھلے سال ایسے 1376 غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا گیا۔
ملک بدری کی قانونی بنیاد
جرمنی سے کسی بھی غیر ملکی کو اس کی ملک میں موجودگی کی قانونی وجوہات اور عرصے سے قطع نظر اس وقت ملک بدر کیا جا سکتا ہے، جب وہ عوامی سطح پر سکیورٹی اور امن کے لیے خطرہ بن جائے۔
عملاﹰ ایسا کئی مختلف عوامل کی بنا پر ممکن ہے۔ مثال کے طور پر کوئی غیر ملکی کسی بہت بڑے اور سنگین جرم کا ارتکاب کرے، منشیات وغیر کی اسمگلنگ اور تجارت میں ملوث پایا جائے، اس نے انسانوں کی اسمگلنگ میں کوئی کردار ادا کیا ہو یا پھر وہ کسی دہشت گرد یا عسکریت پسند گروپ کا رکن ہو یا رہا ہو۔
جرمنی: سات ہزار سے زائد پاکستانیوں کی ملک بدری طے
جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی ڈیٹا بیس کے مطابق ملک کی سولہ وفاقی ریاستوں سے سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو لازمی ملک بدر کیا جانا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس صوبے سے کتنے پاکستانی اس فہرست میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
باڈن ورٹمبرگ
وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ سے سن 2017 کے اختتام تک ساڑھے پچیس ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ ان میں 1803 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
باویریا
جرمن صوبے باویریا میں ایسے غیر ملکی شہریوں کی تعداد تئیس ہزار سات سو بنتی ہے، جنہیں جرمنی سے ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں 1280 پاکستانی بھی شامل ہیں، جو مجموعی تعداد کا 5.4 فیصد ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Anspach
برلن
وفاقی جرمن دارالحکومت کو شہری ریاست کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ برلن سے قریب سترہ ہزار افراد کو لازماﹰ ملک بدر کیا جانا ہے جن میں تین سو سے زائد پاکستانی شہری شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
برانڈنبرگ
اس جرمن صوبے میں ایسے غیرملکیوں کی تعداد قریب سات ہزار بنتی ہے، جنہیں لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں سے سات فیصد (471) کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Oliver Mehlis
ہیسے
وفاقی صوبے ہیسے سے بھی قریب گیارہ ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا ہے جن میں سے 1178 کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
جرمنی میں سب سے زیادہ آبادی والے اس صوبے سے بھی 71 ہزار غیر ملکیوں کو لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں افغان شہریوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہے۔ پاکستانی شہری اس حوالے سے پہلے پانچ ممالک میں شامل نہیں، لیکن ان کی تعداد بھی ایک ہزار سے زائد بنتی ہے۔
تصویر: imago/epa/S. Backhaus
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
رائن لینڈ پلاٹینیٹ سے ساڑھے آٹھ ہزار غیر ملکی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں پانچ سو سے زائد پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
سیکسنی
جرمن صوبے سیکسنی میں ساڑھے گیارہ ہزار غیر ملکی ایسے ہیں، جن کی ملک بدری طے ہے۔ ان میں سے 954 پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دیگر صوبے
مجموعی طور پر سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی ملک بدری طے ہے۔ دیگر آٹھ جرمن وفاقی ریاستوں میں پاکستانیوں کی تعداد پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں، اس لیے ان کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
9 تصاویر1 | 9
ایسے غیر ملکیوں کو قانوناﹰ پہلے تو یہ باقاعدہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ جرمنی سے واپس اپنے آبائی ممالک میں چلے جائیں۔ پھر اگر وہ ایسا نہ کریں اور عوامی جان و مال کے لیے خطرہ بن جانے کے باوجود ملک میں موجود رہیں، تو انہیں زبردستی ملک بدر کر دیا جاتا یے۔
اس سال پہلے چھ ماہ میں کتنے غیر ملکی ملک بدر
جرمن وزارت داخلہ کے مطابق اس سال کی پہلی ششماہی کے دوران جرمنی سے کُل 3369 غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا گیا۔ یہ تعداد ایک سال پہلے کے ابتدائی چھ ماہ کے مقابلے میں اس لیے بہت کم رہی کہ کورونا وائرس کی وبا، لاک ڈاؤن اور طبی سلامتی کی وجوہات کے پیش نظر ایسی ملک بدریاں یا تو روک دی تھیں یا بہت ہی کم کر دی تھیں۔
اخبار 'نوئے اوسنابروکر سائٹنگ‘ کی رپورٹوں کے مطابق جرمنی میں اس وقت تقریباﹰ 30 ہزار غیر ملکی ایسے ہیں، جن کے نام حتمی طور پر ملک بدر کیے جانے والے افراد کی قانونی فہرست میں شامل ہیں۔ ان میں ایسے غیر ملکی بھی شامل ہیں، جنہیں خود بخود جرمنی سے چلے جانے کے لیے کہا جا چکا ہے اور ایسے بھی جو اپنے رجسٹرڈ رہائشی پتوں سے اس لیے غائب ہو چکے ہیں کہ انہیں پکڑ کر زبردستی ملک بدر نہ کر دیا جائے۔
م م / ع ا (ڈی پی اے، کے این اے)
جرمنی: جرائم کے مرتکب زیادہ تارکین وطن کا تعلق کن ممالک سے؟
جرمنی میں جرائم سے متعلق تحقیقات کے وفاقی ادارے نے ملک میں جرائم کے مرتکب مہاجرین اور پناہ کے متلاشیوں کے بارے میں اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ اس گیلری میں دیکھیے ایسے مہاجرین کی اکثریت کا تعلق کن ممالک سے تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
1۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں مقیم مہاجرین کی اکثریت کا تعلق شام سے ہے جو کل تارکین وطن کا قریب پینتیس فیصد بنتے ہیں۔ تاہم کُل جرائم میں شامی مہاجرین کا حصہ بیس فیصد ہے۔ سن 2017 میں تینتیس ہزار سے زائد شامی مہاجرین مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
2۔ افغان مہاجرین
گزشتہ برس اٹھارہ ہزار چھ سو سے زائد افغان مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے اور مہاجرین کے مجموعی جرائم ميں افغانوں کا حصہ گیارہ فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: DW/R.Shirmohammadil
3۔ عراقی مہاجرین
عراق سے تعلق رکھنے والے مہاجرین جرمنی میں مہاجرین کی مجموعی تعداد کا 7.7 فیصد بنتے ہیں لیکن مہاجرین کے جرائم میں ان کا حصہ 11.8 فیصد رہا۔ گزشتہ برس تیرہ ہزار کے قریب عراقی مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
4۔ مراکشی تارکین وطن
مراکش سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد مجموعی تعداد کا صرف ایک فیصد بنتے ہیں لیکن جرائم میں ان کا حصہ چار فیصد کے لگ بھگ رہا۔ بی کے اے کے مطابق ایسے مراکشی پناہ گزینوں میں سے اکثر ایک سے زائد مرتبہ مختلف جرائم میں ملوث رہے۔
تصویر: Box Out
5۔ الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین
مراکش کے پڑوسی ملک الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں میں بھی جرائم کی شرح کافی نمایاں رہی۔ گزشتہ برس چھ ہزار سے زائد مراکشی مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
6۔ ایرانی تارکین وطن
جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کرنے میں ایرانی تارکین وطن چھٹے نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس قریب چھ ہزار ایرانیوں کو مختلف جرائم میں ملوث پایا گیا جو ایسے مجموعی جرائم کا ساڑھے تین فیصد بنتا ہے۔
تصویر: DW/S. Kljajic
7۔ البانیا کے پناہ گزین
مشرقی یورپ کے ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد بھی جرمنی میں جرائم کے ارتکاب میں ساتویں نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس البانیا کے ستاون سو باشندے جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس سن 2016 میں یہ تعداد دس ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
8۔ سربین مہاجرین
آٹھویں نمبر پر بھی مشرقی یورپ ہی کے ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین رہے۔ گزشتہ برس 5158 سربین شہری جرمنی میں مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس ایسے سربین مہاجرین کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زیادہ تھی۔
تصویر: DW/S. Kljajic
9۔ اریٹرین مہاجرین
گزشتہ برس مہاجرین کی جانب سے کیے گئے کل جرائم میں سے تین فیصد حصہ اریٹریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا تھا جن میں سے پانچ ہزار پناہ گزین گزشتہ برس مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache
10۔ صومالیہ کے تارکین وطن
اس ضمن میں دسویں نمبر پر صومالیہ سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور تارکین وطن رہے۔ گزشتہ برس 4844 صومالین باشندوں نے جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
11۔ نائجیرین تارکین وطن
گیارہویں نمبر پر بھی ایک اور افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن رہے۔ سن 2017 میں نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 4755 پناہ گزین مختلف نوعیت کے جرائم کے مرتکب ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
12۔ پاکستانی تارکین وطن
وفاقی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اڑتیس سو پاکستانی شہری بھی جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث رہے جب کہ 2016ء میں تینتالیس سو سے زائد پاکستانیوں نے مختلف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ مہاجرین کے جرائم کی مجموعی تعداد میں پاکستانی شہریوں کے کیے گئے جرائم کی شرح 2.3 فیصد رہی۔ جرمنی میں پاکستانی تارکین وطن بھی مجموعی تعداد کا 2.3 فیصد ہی بنتے ہیں۔