جرمنی سے ملک بدریاں: ’پاکستان اور بھارت تعاون نہیں کرتے‘
26 مارچ 2018
جرمنی میں سن 2017 میں ایسے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا، جنہیں جرمنی سے ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔ جرمن حکام کے مطابق ان تارکین وطن کے آبائی ممالک ان کی سفری دستاویزات کے حصول میں تعاون نہیں کر رہے۔
اشتہار
فُنکے میڈیا گروپ نے جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ کی ایک داخلی دستاویز کے حوالے سے بتایا ہے کہ سن 2017 میں ملک میں ایسے تارکین وطن کی تعداد میں اکہتر فیصد تک اضافہ ہوا، جن کی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی گئی تھیں لیکن ان کے پاس سفری دستاویزات نہ ہونے کے سبب جرمنی سے ملک بدر کر کے واپس ان کے آبائی ممالک نہیں بھیجا جا سکا۔ سن 2016 میں ایسے پناہ گزینوں کی تعداد 38 ہزار تھی جب کہ گزشتہ برس یہ تعداد بڑھ کر 65 ہزار ہو گئی۔
وزارت داخلہ کی اس داخلی رپورٹ کے مطابق زیادہ تر واقعات میں ایسے پناہ گزینوں کی وطن واپسی اس لیے ممکن نہ ہو سکی کیوں کہ ان کے آبائی وطنوں کے جرمنی میں موجود سفارت خانوں اور کونسل خانوں نے ان کی سفری دستاویزات کے حصول میں تعاون نہیں کیا۔
پاکستان اور بھارت کا ’انتہائی کم تعاون‘
کس جرمن صوبے میں سیاسی پناہ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں
بی اے ایم ایف کے مطابق پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے تارکین وطن کو پناہ ملنے یا نہ ملنے کا انحصار دیگر کئی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی ہے کہ ان کی پناہ کی درخواستیں کس جرمن صوبے میں جمع کرائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
برانڈنبرگ
گزشتہ برس جرمنی میں سیاسی پناہ کی سب سے کم درخواستیں جرمن صوبے برانڈنبرگ میں منظور کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Settnik
باویریا
وفاقی ریاست باویریا میں سی ایس یو برسراقتدار ہے جس کے سربراہ ہورسٹ زیہوفر نئی جرمن حکومت میں وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ زیہوفر جرمن بھر سے تارکین وطن کی ملک بدری میں اضافہ کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ گزشتہ برس ان کے صوبے میں پناہ کی درخواستیں قبول کیے جانے کی شرح 31.8 فیصد رہی۔
جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کا شمار بھی ان جرمن صوبوں میں ہوتا ہے جہاں تارکین وطن کو پناہ ملنے کے امکانات کم ہیں۔ گزشتہ برس اس صوبے میں پناہ کی 37.7 فیصد درخواستیں قبول کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Schuldt
تھیورنگیا
گزشتہ برس وفاقی جرمن ریاست تھیورنگیا میں سیاسی پناہ کے 44.1 فیصد درخواست گزاروں کو پناہ ملی جب کہ دیگر درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
تصویر: epd-bild/M. Schuck
برلن
جرمن دارالحکومت برلن وفاقی ریاست بھی ہے۔ برلن میں گزشتہ برس 44.3 فیصد پناہ گزینوں کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تصویر: Imago/C. Mang
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
اس وفاقی ریاست میں بھی سن 2017 کے دوران صرف 44.6 فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
تصویر: Fotolia/Matthias Wilm
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے حصے میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ تارکین وطن آئے۔ یہاں سیاسی پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح پینتالیس فیصد سے کچھ زائد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Ossinger
ہیمبرگ
جرمنی کے ساحلی شہر اور وفاقی ریاست ہیمبرگ میں قریب اڑتالیس فیصد پناہ کے درخواست گزاروں کو گزشتہ برس قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bildagentur-online
زیریں سیکسنی
گزشتہ برس جرمن صوبے زیریں سیکسنی میں 52.4 فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تصویر: Fotolia/Thorsten Schier
شلسویگ ہولسٹائن
اس صوبے میں بھی زیریں سیکسنی کی طرح پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح 52.4 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہیسے
وفاقی جرمن ریاست ہیسے میں بھی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کے امکانات کئی دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ گزشتہ برس اس صوبے نے پناہ کے 53.2 فیصد درخواست گزاروں کو پناہ دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بریمن
جرمنی کے شمال میں واقع شہر بریمن بھی برلن اور ہیمبرگ کی طرح وفاقی جرمن صوبہ بھی ہے۔ اس شمالی ریاست نے گزشتہ برس قریب ساٹھ فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کیں۔
تصویر: picture-alliance/K. Nowottnick
زارلینڈ
زارلینڈ جرمنی کے جنوب مغرب میں فرانسیسی سرحد کے قریب واقع ہے۔ گزشتہ برس یہاں تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح تہتر فیصد رہی جو جرمنی کی دیگر ریاستوں کی نسبت سب سے زیاد ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/O. Dietze
13 تصاویر1 | 13
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اپنے شہریوں کی وطن واپسی میں انتہائی کم تعاون کرنے والے ممالک میں پاکستان اور بھارت سب سے نمایاں رہے۔ بھارتی حکام کے عدم تعاون سے متعلق جرمن وزارت داخلہ کی اس رپورٹ میں لکھا گیا، ’’بارہا رابطوں اور سفارت خانے میں جانے کے باوجود بھارتی تارکین وطن کے لیے نئے پاسپورٹ کے اجرا کے حوالے سے سفارت خانے کا تعاون یا تو انتہائی سست رہتا ہے یا پھر بالکل نہ ہونے کے برابر۔‘‘
اسی طرح پاکستانی حکام کے عدم تعاون کے بارے میں اس رپورٹ کے مندرجات کچھ یوں تھے، ’’پاسپورٹ کے حصول کی درخواستوں پر عمل درآمد کیا جاتا ہے لیکن سست روی سے۔‘‘
علاوہ ازیں لبنانی سفارت خانے کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے کہ وہ بھی سفری دستاویزات کے حصول میں انتہائی کم تعاون کرتے ہیں اور کئی مرتبہ سفارت خانے سے رابطہ کرنا بھی بہت مشکل ثابت ہوتا ہے۔
ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق طے پانے والے معاہدے کو دو برس گزر چکے ہیں۔ اس رپورٹ میں ترکی کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ سن 2017 کے اواخر میں ترک حکام سے کا تعاون ’کمزور‘ سے ’انتہائی کمزور‘ کے درجے پر جا پہنچا تھا۔
علاوہ ازیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ افغانستان اور روس سے تعلق رکھنے والے غیر ملکیوں کی جرمنی میں پناہ کی درخواستوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جب کہ ملک بھر میں تین ہزار آٹھ سو تارکین وطن ایسے بھی ہیں جن کی اصل قومیت اور شناخت کے بارے میں حکام ابھی تک معلومات حاصل نہیں کر پائے ہیں۔
پناہ کے فیصلوں کے خلاف کامیاب اپیلوں میں اضافہ
گزشتہ ہفتے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اگر بی اے ایم ایف کے حکام بڑے پیمانے پر پناہ کی درخواستیں مسترد کرتے ہیں لیکن ایسے فیصلوں کے خلاف تارکین وطن کی انتظامی عدالتوں میں کامیابی کا تناسب بھی بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اب تک جرمن حکام نے پناہ کی جتنی درخواستوں پر فیصلے کیے ہیں ان کی تعداد یورپی یونین کے تمام دیگر رکن ممالک کے مجموعی طور پر کیے گئے فیصلوں سے بھی زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق دسمبر 2017ء تک اپنے وطن سے مہاجرت اختیار کرنے والے انسانوں کی تعداد 258 ملین ہو چکی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے سب سے زیادہ مہاجرت کس ملک کے شہریوں نے اختیار کی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
۱۔ بھارت
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2017 کے اواخر تک قریب ایک کروڑ ستر لاکھ (17 ملین) بھارتی شہری اپنے ملک کی بجائے بیرون ملک مقیم تھے۔ سن 2000 میں بیرون ملک مقیم بھارتی شہریوں کی تعداد آٹھ ملین تھی اور وہ عالمی سطح پر اس حوالے سے تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
۲۔ میکسیکو
جنوبی امریکی ملک میکسیکو ایک کروڑ تیس لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے۔ بیرون ملک مقیم میکسیکو کے شہریوں کی نوے فیصد تعداد امریکا میں مقیم ہے۔ سن 1990 میں 4.4 ملین اور سن 2000 میں 12.4 ملین میکسیکن باشندے بیرون ملک مقیم تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
۳۔ روس
تیسرے نمبر پر روس ہے جس کے ایک ملین سے زائد شہری بھی اپنے وطن کی بجائے دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2000 میں روس اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھا اور اس وقت بھی اس کے قریب گیارہ ملین شہری بیرون ملک مقیم تھے۔
چینی شہریوں میں بھی ترک وطن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور دسمبر 2017 تک ایک کروڑ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں چوتھے نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں بیرون ملک مقیم چینی شہریوں کی تعداد چوالیس لاکھ تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Infantes
۵۔ بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش اقوام متحدہ کے تیار کردہ اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پچہتر لاکھ سے زائد بنگالی شہری دوسرے ممالک میں مقیم ہیں۔
تصویر: DW
۶۔ شام
خانہ جنگی کا شکار ملک شام کے قریب ستر لاکھ شہری بیرون ملک مقیم ہیں۔ شام سن 1990 میں اس عالمی درجہ بندی میں چھبیسویں نمبر پر تھا تاہم سن 2011 میں شامی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد لاکھوں شہری ہجرت پر مجبور ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
۷۔ پاکستان
ساٹھ لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ پاکستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں 34 لاکھ جب کہ سن 2005 کے اختتام تک 39 لاکھ پاکستانی شہری بیرون ملک آباد تھے۔ تاہم سن 2007 کے بعد پاکستانی شہریوں میں دوسرے ممالک کا رخ کرنے کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا۔
تصویر: Reuters/S. Nenov
۸۔ یوکرائن
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نوے کی دہائی میں یوکرائن اس عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر تھا۔ بعد ازاں یوکرائینی باشندوں کی مہاجرت کے رجحان میں بتدریج کمی ہو رہی تھی۔ تاہم روس اور یوکرائن کے مابین حالیہ کشیدگی کے بعد اس رجحان میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔ اس برس کے اختتام تک 5.9 ملین یوکرائینی شہری بیرون ملک آباد ہیں۔
تصویر: Picture alliance/dpa/Matytsin Valeriy
۹۔ فلپائن
ستاون لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ فلپائن اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ سن 2000 میں اپنے وطن سے باہر آباد فلپائینی شہریوں کی تعداد تیس لاکھ تھی۔ گزشتہ سترہ برسوں کے دوران زیادہ تر فلپائینی باشندوں نے امریکا کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ F. R. Malasig
۱۰۔ برطانیہ
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس فہرست میں برطانیہ دسویں نمبر پر ہے جس کے قریب پچاس لاکھ شہری دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔ دوسری جانب برطانیہ میں مقیم غیر ملکیوں کی تعداد 8.8 ملین بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/P. Nichols
۱۱۔ افغانستان
آخر میں پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان کا ذکر بھی کرتے چلیں جو اڑتالیس لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ اس عالمی درجہ بندی میں گیارہویں نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں افغانستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر تھا اور اس کے 6.7 ملین شہری وطن سے باہر مقیم تھے۔ تاہم سن 1995 تک بائیس لاکھ سے زائد افغان شہری وطن واپس لوٹ گئے تھے۔