1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی سے ملک بدریاں: پولیس طاقت کا استعمال کیوں کرتی ہے؟

13 اگست 2019

جرمن پولیس کو ملک بدری کے عمل میں پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پولیس نے جواباﹰ طاقت کا استعمال بھی بڑھا دیا ہے، جس پر اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

Symbolbild - Abschiebung
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler

پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی جرمنی سے ملک بدری کے عمل میں کئی طرح کی رکاوٹیں ہیں۔ کبھی عدالت ملک بدری روک دیتی ہے تو کبھی پولیس کی گرفت میں آنے سے قبل وہ شخص ہی 'غائب‘ ہو جاتا ہے۔ جرمن پولیس کو اکثر پناہ گزینوں کی جانب سے ملک بدری کے خلاف جسمانی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران 335 افراد کی ملک بدری اس وجہ سے نہ ہو پائی کہ کمرشل جہاز کے پائلٹوں نے انہیں اپنے ہمراہ لے جانے سے انکار کر دیا تھا۔

جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ نے یہ اعداد و شمار بائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت کی طرف سے پارلیمان میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں فراہم کیے۔ ڈی ڈبلیو کے پاس موجود ان اعداد و شمار سے معلوم پڑتا ہے کہ پائلٹوں کی جانب سے پناہ گزینوں کی ملک بدری سے انکار کرنے کے سب سے زیادہ واقعات فرینکفرٹ کے ایئر پورٹ پر پیش آئے۔ جرمن ایئرلائن لفتھانزا کے پائلٹوں نے 87 تارکین وطن کو اپنے ہوائی جہازوں میں سوار کرا کر ملک بدر کرنے سے انکار کیا۔

کئی پائلٹ بھی پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کو اپنے ہمراہ لے جانے سے انکار کر دیتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler

ہتھکڑی لگا کر ملک بدر کرنے کے واقعات میں اضافہ

دی لِنکے نامی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن پارلیمان اُولا یلپکے نے پناہ گزینوں کی ملک بدریوں سے متعلق چھبیس تفصیلی سوالات پوچھے تھے۔ یلپکے کے مطابق ان کے لیے یہ بات انتہائی پریشانی کا سبب بنی کہ جرمنی سے پناہ گزینوں کو ہتھکڑیاں لگا کر ملک بدر کیے جانے کے واقعات میں دس گنا اضافہ ہوا ہے۔ سن 2015 میں ایسے صرف 135 واقعات پیش آئے تھے، جو تین برس بعد سن 2018 میں 1231 ہو گئے تھے۔

گزشتہ تین برسوں کے دوران جرمنی سے ملک بدر کیے جانے والے افراد کی تعداد قریب یکساں رہی۔ سن 2017 میں تقریباﹰ چوبیس ہزار جب کہ گزشتہ برس ساڑھے تیئیس ہزار سے زائد افراد ملک بدر کیے گئے۔ رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران ساڑھے گیارہ ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا گیا۔

ملک بدریاں اور طاقت کا استعمال

جرمن وزارت داخلہ کے مطابق پناہ گزینوں کو ملک بدر کرتے وقت پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال کے واقعات میں اضافہ اس لیے ہوا ہے کیوں کہ ایسے افراد بھی پر تشدد انداز میں اپنی ملک بدری کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے وزارت داخلہ کی خاتون ترجمان الیونورے پیٹرمان کا کہنا تھا کہ عام طور پر ملک بدریاں پناہ گزینوں کی رضا مندی کے بغیر ہوتی ہیں، اس لیے ان میں سے کئی اپنی ملک بدری کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے جسمانی تشدد کی راہ اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک بدری کے لیے ہتھکڑیاں لگانا اور دیگر اقدامات کا مقصد حفاظت یقینی بنانا ہوتا ہے اور ایسا صرف آخری حل کے طور پر ہی کیا جاتا ہے۔

’ملک بدریوں کا عمل شفاف نہیں‘

اُولا یلپکے کا ملک بدریوں کے لیے طاقت کے استعمال کو 'ناقابل برداشت‘ قرار دیتے ہوئے کہنا تھا کہ مایوس افراد کو جبری طور پر ملک بدر کیے جانے کے کئی پریشان کن واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔

یلپکے نے بتایا کہ انسداد تشدد کی یورپی کونسل سمیت انسانی حقوق کے لیے سرگرم دیگر تنظیمیں بھی جرمن حکام سے مطالبہ کر چکی ہیں کہ وہ ملک بدریوں کے لیے 'طاقت کا غیر متناسب اور غیر معقول‘ استعمال کرنے سے گریز کریں۔

مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم یورپی تنظیم 'پرو ازول‘ کے قانونی شعبے کے سربراہ بیرنٹ میسووچ کا کہنا تھا کہ ملک بدریوں کے وقت طاقت کے بھرپور استعمال کی شکایات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ میسووچ کا کہنا تھا کہ پناہ گزینوں کو ملک بدری کے لیے حراست میں لینے سے لے کر جہاز میں سوار کرانے تک کے تمام مراحل میں شامل جرمن پولیس کے مختلف شعبوں کے اہلکاروں کی جانب سے طاقت کا ناجائز استعمال کیا جاتا ہے۔

'پرو ازول‘ کے مطابق ملک بدریوں کے لیے اختیار کردہ پورا عمل شفاف نہیں ہے۔ میسووچ کے مطابق سیاسی جماعتوں کی جانب سے ملک بدریوں میں اضافے کے لیے ڈالا جانے والا دباؤ بھی پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہے۔

مارسیل فیورسٹناؤ (ش ح / م م)

جرمن بچی کا پاکستانی پناہ کا متلاشی والد ملک بدر

03:16

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں