ایک جرمن عدالت کا کہنا ہے کہ ہنگری کے سیاسی پناہ سے متعلق موجودہ قوانین غیر معقول ہیں۔ جرمن جج کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہنگری میں مہاجرین کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ایک جرمن صوبے باڈن وُرٹمبرگ کی ایک عدالت نے ہنگری میں سیاسی پناہ کے موجودہ قوانین کو ناجائز اور غیر انسانی قرار دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق باڈن ورٹمبرگ کی انتظامی عدالت نے یہ بات ایک اٹھائیس سالہ شامی مہاجر کی جانب سے دائر کیے ایک مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہی۔
یہ شامی مہاجر 2014ء میں ہنگری کے راستے جرمنی پہنچا تھا۔ یورپی یونین کے ڈبلن قوانین کے مطابق کوئی بھی تارکِ وطن اسی ملک میں درخواست دے سکتا ہے جس کے ذریعے وہ یورپی یونین کی حدود میں داخل ہوا ہو۔ اسی ڈبلن قانون کے تحت اس شامی مہاجر کو بھی جرمنی سے ملک بدر کر کے ہنگری بھیج دیا جانا تھا۔
جرمن حکام کی جانب سے ہنگری ملک بدر کیے جانے کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد اس شامی مہاجر نے انتظامی عدالت میں اپیل دائر کی تھی۔ اس کی درخواست پر مختصر فیصلہ پانچ جولائی 2016ء کو سنایا گیا تھا۔ آج اٹھارہ جولائی بروز پیر باڈن ورٹمبرگ کی انتظامی عدالت کے جج نے اس فیصلے کی تفصیلات پڑھ کر سنائیں۔
جرمن عدالت کے جج نے شامی مہاجر کو ڈبلن قوانین کے تحت ہنگری بھیجنے کا فیصلہ معطل کر دیا۔ کیس کا تفصیلی فیصلہ سناتے ہوئے جج کا کہنا تھا کہ جرمنی سے ملک بدر کر کے ہنگری بھیجنے جانے کی صورت میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہنگری میں اس شامی مہاجر کو ممکنہ طور پر گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جائے گا۔
جرمن عدالت کے جج کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیاسی پناہ سے متعلق ہنگری کے موجودہ قوانین کو دیکھا جائے تو اس شامی مہاجر کی پناہ کی درخواست پر ایک غیر جانبدار اور انصاف پر مبنی فیصلہ سنائے جانے کے امکانات بھی نہایت کم ہیں۔
عدالت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اگرچہ عدالت نے یہ فیصلہ صرف ایک شامی مہاجر کی جانب سے دائر کردہ مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے سنایا ہے لیکن اس فیصلے کے اثرات اس نوعیت کے موجودہ اور آئندہ دائر کیے جانے والی درخواستوں پر بھی پڑ سکتے ہیں۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔