وفاقی جرمن پارلیمان نے ملک سے تارکین وطن اور مہاجرین کی ملک بدری کا نیا قانون جمعرات اٹھارہ مئی کی شام منظور کیا تھا۔ ان نئے قانون کے تحت جرمنی سے تارکین وطن کو زیادہ تعداد میں اور جلد ملک بدر کیا جا سکے گا۔
اشتہار
جرمن پارلیمان نے غیر ملکیوں کی تیز تر ملک بدری کا نیا قانون گزشتہ جمعرات کی شام بھاری اکثریت سے منظور کیا۔ اس قانون کی حکمران اتحاد میں شامل دونوں بڑی جماعتوں ایس پی ڈی اور سی ڈی یو نے تائید کی۔
نئے قانون کے مطابق جرمنی میں کسی بھی قانونی حیثیت کے بغیر رہنے والے ایسے غیر ملکیوں اور تارکین وطن کو، جن سے کسی دوسرے شخص کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو یا وہ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہوں، فوری طور پر ملک بدر کیا جا سکے گا۔ وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے پیش کیے گئے اس قانونی مسودے میں وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے ایسی شقیں بھی شامل کر دی تھیں، جن کے تحت پناہ کے متلاشی افراد کی اصل شناخت جاننے کے لیے ان کے موبائل فون کا ریکارڈ بھی حاصل کیا جا سکے گا۔ یوں یہ تجویز بھی اب قانونی شکل اختیار کر چکی ہے۔
علاوہ ازیں نئے قانون کے مطابق جرمنی کی وفاقی حکومت اور ریاستی حکومتیں پناہ کی درخواست مسترد ہو جانے والے تارکین وطن کی ملک بدری یقینی بنانے کے لیے تعاون کریں گی۔ ان اقدامات کا مقصد ایسے پناہ گزینوں کی جلد اور مسلسل وطن واپسی کو یقینی بنانا ہے۔ رواں برس فروری تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی سے دو لاکھ پندرہ ہزار سے زائد غیر ملکیوں کو لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں سے قریب ساٹھ ہزار تارکین وطن ایسے بھی ہیں جنہیں جرمنی میں دی گئی عارضی رہائش کی اجازت بھی ختم ہو چکی ہے۔
اب اس نئے جرمن قانون کے مطابق پناہ کے مسترد شدہ درخواست گزاروں کی ملک بدری کے علاوہ ایسے تارکین وطن کو بھی جرمنی سے ملک بدر کیا جا سکے گا جنہوں نے اپنی حقیقی شناخت کے بارے میں جھوٹ بولا ہو۔ علاوہ ازیں وفاقی جرمن صوبے تارکین وطن کو دو سال تک کی مدت کے لیے ابتدائی رجسٹریشن کے مراکز میں رکھ سکیں گے۔ یوں مہاجرین اور پناہ گزینوں کی درخواستوں پر فیصلے سنائے جانے تک انہیں ابتدائی رجسٹریشن مراکز میں رکھا جا سکے گا۔
وفاقی جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے اس نئے اور سخت ترین قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا، ’’یہ بات ناقابل قبول ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں تارکین وطن کو بغیر احتساب کے اور ان کی من مانی پر چھوڑ دیا جائے۔ یہ لوگ غلط نام بتاتے ہیں، غلط قومیت درج کراتے ہیں اور حکام کو کوئی بھی مفید معلومات فراہم نہیں کرتے۔ انہیں امید ہے کہ درخواست مسترد بھی ہو گئی تو سفری دستاویزات نہ ہونے کے سبب انہیں ملک بدر نہیں کیا جا سکے گا۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت مہاجرین کی مدد کرنے والی کئی دیگر تنظیموں نے اس نئے جرمن قانون کی منظوری پر شدید تنقید کی ہے۔ حکمران اتحاد میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے دو پارلیمانی ارکان نے بھی رائے دہی کے دوران اس مسودہ قانون کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘