شامی مہاجرین کو پاسپورٹ کی تجدید پر مجبور کیوں کر رہا ہے؟
18 دسمبر 2018
جرمنی میں شامی مہاجرین کو پاسپورٹ کی تجدید کے لیے جبراﹰ شامی سفارت خانوں میں بھیجا جا رہا ہے۔ تاہم ناقدین کا خیال ہے کہ یہ اقدام بشارالاسد کی ظالمانہ حکومت کو تسلیم کرنے اور اسے سرمایہ مہیا کرنے کے مترادف ہے۔
اشتہار
سن 2014 سے جرمنی پہنچنے والے لاکھوں شامی مہاجرین میں سے زیادہ تر کو ’مکمل مہاجر‘ کے درجہ دینے کی بجائے ’جز وقتی پناہ‘ دی گئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب بھی بشارالاسد کی حکومت کے زیرنگرانی چلنے والے سفارت خانوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں تاکہ ان کے شناختی دستاویزات کا اجراء یا تجدید ہو پائے۔
تاہم مہاجرین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی جرمن تنظیموں کی جانب سے ان شامی تارکین وطن کو شامی سفارت خانوں سے پاسپورٹ کی تجدید پر مجبور کرنے کے عمل کو بشارالاسد کی حکومت کو تسلیم کرنے اور اسے سرمایہ فراہم کرنے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔
جرمن قانون کے مطابق کسی تارک وطن کو جرمنی میں سیاسی پناہ کے حوالے سے مختلف درجوں میں بانٹا جاتا ہے، جس کے لیے ان تارکین وطن کے شناختی دستاویزات اور دیگر کوائف کی ضرورت پڑتی ہے، جس میں پاسپورٹ بھی شامل ہیں۔ جرمنی میں سن 2015ء میں آنے والے قریب ننانوے اعشاریہ سات فیصد کو ’مکمل پناہ گزین‘ کا درجہ دیا گیا تھا، تاہم گزشتہ برس یہ درجہ صرف اڑتیس اعشاریہ دو فیصد افراد کو ملی جب کہ قریب 61 فیصد افراد کو جزوی پناہ گزین کا درجہ دیا گیا۔
شامیوں کی معاونت کے جرمن گروپوں کی ایسوسی ایشن سے وابستہ ژینز مارٹِن روڈے نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’یہ ایک طرح سے اسکینڈل ہے۔ ہمارے پاس جرمنی میں قریب سات لاکھ تارکین وطن ہیں، جن میں اکثریت شامی باشندوں کی ہے، جو شامی حکومت کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ ان افراد سے یہ کہنا کہ وہ شامی سفارت خانوں سے پاسپورٹ تجدید کروا کر لائیں، ناقابل قبول اقدام ہے۔‘‘
روڈے کے مطابق اس حوالے سے کئی طرح کی وجوہات ہیں، جو اس اقدام کو ’غیرانسانی‘ بناتی ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شامی حکومت ملک سے فرار ہونے والے افراد کا پتا چلا کر شام میں موجود ان کے اہل خانہ کو ہدف بنا سکتی ہے۔ روڈے نے کہا کہ برلن میں قائم شامی سفارت خانہ شام کی خفیہ پولیس سے انتہائی قریبی تعلق کا حامل ہے۔
خوش آمدید: جرمنی میں مہاجرین کے لیے منفرد رہائش گاہیں
مہاجرین کی رہائش کے لیے روایتی طور پر خیمے، کنٹینرز اور متروکہ ہارڈ ویئر اسٹورز استعمال کیے جاتے ہیں۔ تاہم جرمنی میں مہاجرین کی رہائش کے لیے اچھوتے منصوبوں پر غور جاری ہے تاکہ وہ جرمنی میں آرام دہ زندگی بسر کر سکیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
چھتوں کے اوپر
جرمن شہر ہینوور کی یونیورسٹی میں آرکیٹیکچر کے طالب علموں نے ایک منصوبے کے تحت مہاجرین کی رہائش کے لیے متعدد ماڈل تیار کیے ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد شہر میں ایسی رہائش گاہیں تعمیر کرنا ہے، جہاں کھلا ماحول دستیاب ہو۔ تصویر میں نظر آنے والے اس ماڈل میں عمارتوں کے اوپر رہائش گاہیں تعمیر کرنے کا خیال پیش کیا گیا ہے، جس پر عملدرآمد کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ دیگر ماڈل فی الوقت خیالی قرار دیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
تیرتے ہوئے گھر
جرمنی میں تقریباﹰ 870 بڑے کارگو بحری جہاز استعمال میں نہیں لائے جا رہے۔ انہیں مہاجرین کی پناہ گاہوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ دریاؤں کا پانی فلٹر کرنے کے بعد ان جہازوں میں بنے مکانات کے آئندہ رہائشیوں کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے جبکہ مکینوں کے لیے بجلی کا انتظام شمسی توانائی اور ہوا کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
رہائش کا شاندار خیال
ہینوور شہر میں واقع ڈچ پویلین، جہاں ایکسپو 2000ء نامی عالمی نمائش منعقد کی گئی تھی، اب خالی پڑی ہے۔ ممکنہ طور پر اس کو بھی مہاجر کیمپ بنایا جا سکتا ہے۔ اس عمارت کی تیسری منزل پر ایک بڑا گارڈن بھی ہے، جو مہاجرین کی رہائش اور آپس میں میل ملاپ کی خاطر ایک سینٹر کے طور پر اچھا متبادل ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
بنے بنائے گھر
لکڑی کے بنے بنائے گھروں کے ماڈل کسی بھی خالی مقام پر نصب کیے جا سکتے ہیں۔ بالخصوص دو عمارتوں کے درمیان واقع خالی جگہوں میں ان گھروں کو ضرورت کے مطابق کاٹ کر تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ ایسے مکانات محض دو تین دنوں میں تعمیر کیے جا سکتے ہیں اور ضرورت پوری ہونے پر انہیں سہولت کے ساتھ وہاں سے کہیں بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ گھر آسانی سے دفاتر میں بھی تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
باغوں میں تعمیر کردہ گھر
جرمنی میں کئی چھوٹے چھوٹے مکانات باغیوں میں بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان کے مالکان انہیں باغبانی سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو کرائے پر بھی دیتے ہیں۔ ان گھروں میں بنیادی ضروریات کی تمام چیزیں ہوتی ہیں۔ لائپزگ یونیورسٹی کے طالب علموں نے تجویز کیا ہے کہ ایسے گھروں کو مہاجرین کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ خوبصورت باغیچوں میں قائم یہ رہائش گاہیں بے گھر افراد کی اداسی دور کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
کار پارکنگ کی عمارتوں میں رہائش
جرمن شہروں میں پبلک پارکنگ کے کئی ایسے مقامات بھی ہیں، جو مکمل طور پر استعمال میں نہیں لائے جا رہے۔ شہروں کے وسط میں قائم کردہ پارکنگ کے لیے بنائی گئی یہ عمارتیں مہاجرین کے سینٹرز میں تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ زیر زمین واقع ان عمارتوں کی کچھ منزلوں کو مہاجر سینٹر بنا دینے کے باوجود انتہائی نچلی منزلوں کو پھر بھی پارکنگ کے لیے استعمال میں لایا جا سکے گا۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
منفرد طرز کے موبائل گھر
ہینوور کے شمال میں واقع ایک پرانا کارگو اسٹیشن کئی برسوں سے بند پڑا ہے۔ وہاں بھی مہاجروں کے قیام اور آرام کے لیے عارضی رہائش گاہیں بنائی جا سکتی ہے۔ آرکیٹیکچر کے طالب علموں نے اس اسٹیشن پر استعمال میں نہ لائی جانے والی بوگیوں کی مدد سے گھروں کا ڈیزائن تیار کیا ہے۔ جرمنی کے تقریباﹰ ہر شہر میں ایسے پرانے بے آباد اسٹیشن اب بھی قائم ہیں، جنہیں مہاجرین کی رہائش گاہوں کے طور پر کارآمد بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: Leibnitz Universität in Hannover
7 تصاویر1 | 7
ایک شامی لکھاری عارف حمزہ کے مطابق، ’’سفارت خانے جانا ایسے تمام شامی باشندوں کے لیے خطرناک ہے، جن کے اہل خانہ شام میں رہتے ہیں۔ اگر شامی حکومت کو ایسے افراد کی شناخت ہو جاتی ہے، تو شام میں موجود ان کے اہل خانہ کو حراست میں لیا جا سکتا ہے، بلیک میلنگ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، حتیٰ کہ قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اس کے علاوہ اس عمل پر یہ اعتراض بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اس طرح شامی تارکین وطن پاسپورٹ کے اجراء، تجدید یا دیگر دستاویزات کی مد میں شامی حکومت کو ایک کثیر سرمایہ فراہم کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ گرین پارٹی کی مہاجرین سے متعلقہ امور کی ترجمان لوئزے امٹس برگ کے مطابق، ’’پاسپورٹ شامی حکومت کے لیے آمدن کا ایک ایسا ذریعہ نہیں، جسے فراموش کیا جا سکے۔ یہ پیسہ دہشت گردانہ حکومت کو سرمایہ فراہم کرنے کے مترادف ہے۔‘‘