جرمنی: شدت پسند گروپ سے تعلق کے شبے میں دو شامی گرفتار
William Yang/ بینش جاوید AP
9 مئی 2017
جرمن حکام نے شام میں سرگرم شدت پسند گروپوں کے ساتھ تعلق کے شبے میں دو شامی شہریوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ حکام کے مطابق ان میں سے ایک شخص پر شبہ ہے کہ وہ شام کے مشرقی حصے میں داعش کے لیے ایک ڈیم کا انتظام بھی چلا چکا ہے۔
اشتہار
خبر رساں دارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے جرمنی کے وفاقی دفترِ استغاثہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ 30 سالہ شامی شہری عبدالمالک اے کو منگل کے روز برلن سے جبکہ 23 سالہ موسی ایچ اے، کو بھی منگل ہی کے روز جرمن ریاست سیکسنی انہالٹ سے گرفتار کیا گیا۔ ان دونوں افراد کی گرفتاری کے احکامات گزشتہ ہفتے جاری کیے گئے تھے۔ جرمن پرائیویسی قوانین کے مطابق ان دونوں شامیوں کے ناموں کا آخری حصہ واضح نہیں کیا گیا۔
ان دونوں افراد نے مبینہ طور پر 2012ء میں شامی حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے النصرہ فرنٹ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ عبدالمالک اے کو شام کے مشرقی حصے میں ایک یونٹ کی کمانڈ بھی دی گئی تھی۔
وکلائے استغاثہ کے مطابق عبدالمالک پر جنگی جرم کا مرتکب ہونے کا بھی شبہ ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے 2013ء کے موسم بہار میں شامی شہر طبقا کے قریب شامی حکومت کے ایک اسنائپر کو پکڑا اور اسے مجبور کیا کہ وہ اپنے لیے خود قبر کھودے اور اس کے بعد اسے گلا کاٹ کر ہلاک کر دیا۔
جرمنی میں دہشت گردی کے منصوبے، جو ناکام بنا دیے گئے
گزشتہ اٹھارہ ماہ سے جرمن پولیس نے دہشت گردی کے متعدد منصوبے ناکام بنا دیے ہیں، جو بظاہر جہادیوں کی طرف سے بنائے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sohn
لائپزگ، اکتوبر سن دو ہزار سولہ
جرمن شہر لائپزگ کی پولیس نے بائیس سالہ شامی مہاجر جابر البکر کو دو دن کی تلاش کے بعد گرفتار کر لیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ برلن کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ اس مشتبہ جہادی کے گھر سے دھماکا خیز مواد بھی برآمد ہوا تھا۔ تاہم گرفتاری کے دو دن بعد ہی اس نے دوران حراست خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
آنسباخ، جولائی سن دو ہزار سولہ
جولائی میں پناہ کے متلاشی ایک شامی مہاجر نے آنسباخ میں ہونے والے ایک میوزک کنسرٹ میں حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ اسے کنسرٹ کے مقام پر جانے سے روک دیا گیا تھا تاہم اس نے قریب ہی خودکش حملہ کر دیا تھا، جس میں پندرہ افراد زخمی ہو گئے تھے۔ اس کارروائی میں وہ خود بھی مارا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/D. Karmann
وُرسبُرگ، جولائی سن دو ہزار سولہ
اکتوبر میں ہی جرمن شہر وُرسبُرگ میں ایک سترہ سالہ مہاجر نے خنجر اور کلہاڑی سے حملہ کرتے ہوئے ایک ٹرین میں چار سیاحوں کو شدید زخمی کر دیا تھا۔ پولیس کی جوابی کارروائی میں یہ حملہ آور بھی ہلاک ہو گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Hildenbrand
ڈوسلڈورف، مئی سن دو ہزار سولہ
مئی میں جرمن پولیس نے تین مختلف صوبوں میں چھاپے مارتے ہوئے داعش کے تین مستبہ شدت پسندوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ پولیس کے مطابق ان میں سے دو جہادی ڈوسلڈوف میں خود کش حملہ کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hitij
ایسن، اپریل سن دو ہزار سولہ
رواں برس اپریل میں جرمن شہر ایسن میں تین مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک سکھ ٹیمپل پر بم حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
ہینوور، فروری سن دو ہزار سولہ
جرمنی کے شمالی شہر میں پولیس نے مراکشی نژاد جرمن صافیہ ایس پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے پولیس کے ایک اہلکار پر چاقو سے حملہ کرتے ہوئے اسے زخمی کر دیا تھا۔ شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس سولہ سالہ لڑکی نے دراصل داعش کے ممبران کی طرف سے دباؤ کے نتیجے میں یہ کارروائی کی تھی۔
تصویر: Polizei
برلن، فروری دو ہزار سولہ
جرمن بھر میں مختلف چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران پولیس نے تین مشتبہ افراد کو حراست میں لیا تھا، جن پر الزام تھا کہ وہ برلن میں دہشت گردانہ کارروائی کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ ان مشتبہ افراد کو تعلق الجزائر سے تھا اور ان پر شبہ تھا کہ وہ داعش کے رکن ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اوبراُرزل، اپریل سن دو ہزار پندرہ
گزشتہ برس فروری میں فرینکفرٹ میں ایک سائیکل ریس کو منسوخ کر دیا گیا تھا کیونکہ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ اس دوران شدت پسند حملہ کر سکتے ہیں۔ تب پولیس نے ایک ترک نژاد جرمن اور اس کی اہلیہ کو گرفتار کیا تھا، جن کے گھر سےبم بنانے والا دھماکا خیز مواد برآمد ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
8 تصاویر1 | 8
جرمن دفتر استغاثہ کے مطابق دیر الزور سے تعلق رکھنے والے عبدالمالک اے نے سن 2013ء کے وسط میں مبینہ طور پر دہشت گرد گروپ داعش میں شمولیت اختیار کر لی اور اسے طبقا شہر کے قریب دریائے فرات پر موجود ڈیم کا انچارج مقرر کر دیا گیا۔
تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ دونوں شامی جرمنی میں کب اور کیسے پہنچے۔
جرمن حکام ایسے درجنوں افراد کو اب تک گرفتار کر چکے ہیں جن پر شبہ ہے کہ وہ شام میں جاری خانہ جنگی میں حصہ لے چکے ہیں اور جو گزشتہ دو برسوں کے دوران جرمنی کا رُخ کرنے والے مہاجرین کے ساتھ یہاں پہنچے تھے۔