جرمنی: شریعہ پولیس کے ارکان کے خلاف مقدمے کی کارروائی
20 مئی 2019
جرمنی میں نام نہاد شریعہ پولیس کے ارکان کے خلاف ووپرٹال شہر کی عدالت میں مقدمے کی کارروائی دوبارہ سے شروع ہو گئی ہے۔ اسلامی اور قانونی امور کے ماہر ماتھیاس روہے نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O.Berg
اشتہار
یہ بات 2014ء کی ہے جب ووپرٹال شہر میں چند مسلم نوجوانوں نے’شریعہ پولیس‘ کے نام سے ایک گروہ بنایا تھا۔ یہ نام نہاد پولیس اہلکار شہر کے مرکز میں ایسی جیکٹیں پہن کر گشت کرتے تھے، جن پر شریعہ پولیس درج ہوتا تھے۔ یہ لوگ شراب نوشی، جوا کھیلنے اور موسیقی سننے کے حوالے سے مسلم نوجوانوں کو اسلامی شرعی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ W.Steinberg
پولیس نے اس گروپ کے سات ارکان کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ قائم کیا تھا۔ بعد ازاں عدالت نے انہیں رہا کر دیا تھا۔ ڈوئچے ویلے نے اسلامی اور قانونی امور کے ماہر ماتھیاس روہے سے پوچھا کہ اب مقدمے کا ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے۔ وہ اس کارروائی کو کس طرح سے دیکھ رہے ہیں؟
ماتھیاس روہے: میرے خیال میں یہ صحیح ہے کہ مقدمے کی کارروائی ایک مرتبہ پھر شروع ہو رہی ہے۔ وفاقی جرمن عدالت نے اس بارے میں بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ اس امر پر بہت سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا کہ کیا صرف ایک ہی انفرادی گروپ ہے، جس پر شریعہ پولیس منفی طور پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں ہی اس پر مکمل پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہاں پر تمام افراد ایک ہی طرح سے زندگی نہیں گزار رہے یا ان کی دنیائیں ایک ہی طرح کی نہیں ہیں۔ اگر بات شریعہ پولیس کی ہو تو سب سے پہلے اس ملک کی مسلم آبادی خود کو متاثر محسوس کرے گی۔
جرمنی میں دہشت گردی کے منصوبے، جو ناکام بنا دیے گئے
گزشتہ اٹھارہ ماہ سے جرمن پولیس نے دہشت گردی کے متعدد منصوبے ناکام بنا دیے ہیں، جو بظاہر جہادیوں کی طرف سے بنائے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sohn
لائپزگ، اکتوبر سن دو ہزار سولہ
جرمن شہر لائپزگ کی پولیس نے بائیس سالہ شامی مہاجر جابر البکر کو دو دن کی تلاش کے بعد گرفتار کر لیا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ برلن کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ اس مشتبہ جہادی کے گھر سے دھماکا خیز مواد بھی برآمد ہوا تھا۔ تاہم گرفتاری کے دو دن بعد ہی اس نے دوران حراست خودکشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
آنسباخ، جولائی سن دو ہزار سولہ
جولائی میں پناہ کے متلاشی ایک شامی مہاجر نے آنسباخ میں ہونے والے ایک میوزک کنسرٹ میں حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ اسے کنسرٹ کے مقام پر جانے سے روک دیا گیا تھا تاہم اس نے قریب ہی خودکش حملہ کر دیا تھا، جس میں پندرہ افراد زخمی ہو گئے تھے۔ اس کارروائی میں وہ خود بھی مارا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/D. Karmann
وُرسبُرگ، جولائی سن دو ہزار سولہ
اکتوبر میں ہی جرمن شہر وُرسبُرگ میں ایک سترہ سالہ مہاجر نے خنجر اور کلہاڑی سے حملہ کرتے ہوئے ایک ٹرین میں چار سیاحوں کو شدید زخمی کر دیا تھا۔ پولیس کی جوابی کارروائی میں یہ حملہ آور بھی ہلاک ہو گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Hildenbrand
ڈوسلڈورف، مئی سن دو ہزار سولہ
مئی میں جرمن پولیس نے تین مختلف صوبوں میں چھاپے مارتے ہوئے داعش کے تین مستبہ شدت پسندوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ پولیس کے مطابق ان میں سے دو جہادی ڈوسلڈوف میں خود کش حملہ کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hitij
ایسن، اپریل سن دو ہزار سولہ
رواں برس اپریل میں جرمن شہر ایسن میں تین مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک سکھ ٹیمپل پر بم حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kusch
ہینوور، فروری سن دو ہزار سولہ
جرمنی کے شمالی شہر میں پولیس نے مراکشی نژاد جرمن صافیہ ایس پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے پولیس کے ایک اہلکار پر چاقو سے حملہ کرتے ہوئے اسے زخمی کر دیا تھا۔ شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس سولہ سالہ لڑکی نے دراصل داعش کے ممبران کی طرف سے دباؤ کے نتیجے میں یہ کارروائی کی تھی۔
تصویر: Polizei
برلن، فروری دو ہزار سولہ
جرمن بھر میں مختلف چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران پولیس نے تین مشتبہ افراد کو حراست میں لیا تھا، جن پر الزام تھا کہ وہ برلن میں دہشت گردانہ کارروائی کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ ان مشتبہ افراد کو تعلق الجزائر سے تھا اور ان پر شبہ تھا کہ وہ داعش کے رکن ہیں۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اوبراُرزل، اپریل سن دو ہزار پندرہ
گزشتہ برس فروری میں فرینکفرٹ میں ایک سائیکل ریس کو منسوخ کر دیا گیا تھا کیونکہ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ اس دوران شدت پسند حملہ کر سکتے ہیں۔ تب پولیس نے ایک ترک نژاد جرمن اور اس کی اہلیہ کو گرفتار کیا تھا، جن کے گھر سےبم بنانے والا دھماکا خیز مواد برآمد ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
8 تصاویر1 | 8
ڈوئچے ویلے: بہت سے غیر مسلم اسے طاقت کا ایک مظاہرہ یا پھر اپنے اختیارات کی حد کو جانچنے کی کوشش سمجھتے ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
ماتھیاس روہے: ہاں اس دلیل کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ شاید یہ اتنی مضبوط نہ ہو۔ ہمیں حقائق پر نظر ڈالنا ہو گی۔ جن افراد کے خلاف مقدمہ شروع کیا گیا ہے انہوں نے خود اپنی جیکیٹیں تیار کی تھیں۔ بہت سے افراد نے اسے پاگل پن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔ بظاہر جیکٹیں پہن کر ان کی گشت بے ضرر سے دکھائی دی۔ تاہم یہ بات بھی سچ ہے کہ یہ وہ وقت تھا، جب جرمنی میں مسلم شدت پسندی سر اٹھا رہی تھی، تاہم یہ عمل آبادی کے کچھ حصوں کے لیے خوف کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
ڈوئچے ویلے کی جانب سے یہ انٹریو کیرسٹن کنپ نے کیا ہے۔