جرمن وفاقی حکومت نے صنفی مساوات کی نئی حکمت عملی کی منظوری دے دی ہے۔ نو مختلف حصوں پر مبنی اس حکمت عملی میں صنفی عدم مساوات کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی کابینہ نے ملک میں صنفی عدم مساوات کو ختم کرنے کی ایک جامع حکمت عملی یا Strategy کی باضابطہ منظوری دے دی ہے۔ اس اسٹریٹیجی کے تحت نو مختلف پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے وفاقی سطح پر صنفی مساوات کا نفاذ کیا جائے گا۔
اس کی تفصیلات وفاقی حکومت کی وزیر برائے خاندانی امور فرانزسکا گیفی نے کیا۔ انہوں نے اس منصوبے کو 'مستقبل کے لیے مضبوط‘ یا strong for the future قرار دیا۔ گیفی کے مطابق ملک میں صنفی مساوات کے لیے جرمن حکومت کا یہ ایک مشترکہ عزم ہے اور اس میں تمام محکمے شامل ہوں گے۔
گیفی نے پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ اس منصوبے پر عمل پیرا ہونے سے ہی ہر شعبے میں صنفی مساوات کو ممکن بنایا جائے گا۔ جرمن حکومت کے مطابق اب اس معاملے کی نگرانی خواتین کی وزارت نہیں کرے گی بلکہ تمام وزارتوں اور محکموں کو اس پر عمل کرنے کا پابند کر دیا ہے۔
جرمن وزیر کا کہنا تھا کہ دہائیوں کے بعد ساری کابینہ اس منصوبے پر متفق ہوئی ہے۔ صنفی مساوات کی اس حکمت عملی پر عمل درآمد کے لیے ایک خصوصی ادارے کے قیام کے لیے اراکینِ پارلیمنٹ نے اپنی رضامندی بھی ظاہر کر دی ہے اور یہی ادارہ دیگر تمام محکموں میں حکومتی منصوبے کی نگرانی کرے گا۔
خواتین کا عالمی دن: ایشیائی ممالک میں صنفی مساوات
گزشتہ چند برسوں میں صنفی مساوات کی صورتحال بہتر ہونے کے باوجود آج بھی ایشیائی خواتین اور لڑکیوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے ایشین ممالک میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا۔
تصویر: NDR
افغانستان
افغانستان میں امریکا کے زیر سربراہی بین الاقوامی فوجی اتحاد نے سن 2001 میں طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، جس کے بعد سے ملک میں خواتین کے حقوق کی صورتحال نے ایک نیا موڑ لیا۔ تاہم موجودہ افغان حکومت میں طالبان کی ممکنہ نمائندگی کا مطلب ہے کہ خواتین ایک مرتبہ پھر تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہو جائیں گی۔
تصویر: Getty Images/R. Conway
ایران
ایرانی خواتین کی ایک فٹ بال ٹیم تو بن چکی ہے لیکن وہاں آزادی اور خودمختاری کی لڑائی آج بھی جاری ہے۔ ایرانی وکیل نسرین سوتودیہ کو پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی کیونکہ وہ اسکارف کی پابندی کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین کا دفاع کر رہیں تھیں۔
تصویر: Pana.ir
پاکستان
یہ پاکستان کی پہلی کار مکینک عظمٰی نواز (درمیان میں) کی تصویر ہے۔ یہ جنوبی ایشیائی ملک خواتین کی آزادی کے راستے پر گامزن ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کراچی میں خواتین ’عورت آزادی مارچ‘
#AuratAzadiMarch میں شرکت کر رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S.S. Mirza
بھارت
بھارت میں ’خواتین بائیکرز‘ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایسے مثبت اقدام کے باوجود خواتین جنسی تشدد اور ریپ کا نشانہ بنتی ہیں۔ گزشتہ برس، بھارت میں متعدد خواتین نے اپنے حقوق کے دفاع کے لیے آواز بلند کی۔ #MeToo مہم کے ذریعے متاثرہ خواتین معاشرے کے طاقتور مردوں کے خلاف سراپا احتجاج تھیں۔
تصویر: Imago/Hindustan Times
انڈونیشیا
انڈونیشی خواتین ملکی ترقی کا اہم حصہ ہیں لیکن ان کو قدامت پسند مذہبی قوانین کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر آچے صوبے میں شرعی قوانین نافذ کیے جانے کے بعد خواتین کو اسکارف پہننے پر مجبور کیا گیا اور خواتین کا نا محرم مردوں سے بات چیت کرنا ممنوع قرار دیا گیا۔
تصویر: Imago/C. Ditsch
سری لنکا
سری لنکا میں صنفی مساوات کی صوتحال قدراﹰ بہتر ہے۔ سری لنکن خواتین تعلیم اور روزگار کا انتخاب خود کر سکتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں سری لنکا شاید واحد ایسا ملک ہے، جہاں خواتین کو صحت اور تعلیمی سہولیات تک بھرپور رسائی حاصل ہے۔
تصویر: Imago/Photothek
بنگلہ دیش
بنگلہ دیشی عوام دو دہائیوں سے زائد عرصے سے ایک خاتون کا بطور وزیراعظم انتخاب کر رہے ہیں۔ ان کے دور حکومت میں خواتین کے حقوق میں واضح بہتری پیدا ہوئی ہے۔ تاہم روزگار کی منڈی میں خواتین کی نمائندگی ابھی بھی کم ہے اور صحت و تعلیم تک محدود رسائی ہے۔
تصویر: DW/M. M. Rahman
چین
چینی خواتین کو بلاشبہ ملک کی تیز معاشی ترقی سے فائدہ حاصل ہوا ہے لیکن ان کو سماج میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ آج بھی بچیوں کی پیدائش کے حوالے سے سماجی تعصب موجود ہے۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں تعلیم تک محدود رسائی فراہم کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele
8 تصاویر1 | 8
خاندانی امور کی وزیر فرانزسکا گیفی کے مطابق ملک کے بنیادی دستور کی شق تین کے تحت مردوں اور عورتوں میں مساوات پیدا کرنے کو فروغ دیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مختلف محکموں میں خواتین اور مردوں کی تنخواہوں اور پینشن کو برابری کی سطح پر لایا جائے گا۔ حکومتی پلان کے تحت مردوں کے مقابلے پر عورتوں کو روزگار کے مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ میرکل حکومت کی وزیر نے یہ بھی بتایا کے مختلف محکموں اور اداروں کے نگرانی یا سپروائزری بورڈ میں تیس فیصد خواتین کو شامل کرنے کے قانون پر عمل کرایا جائے گا۔ اس قانون کا نفاذ ہونے سے چھ سو کمپنیوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین سپروائزری بورڈ کا حصہ بن سکیں گی۔ اس وقت ایک سو پانچ کمپنیاں صنفی مساوات کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
ڈی ڈبلیو کے ایک سوال کے جواب میں فرانزسکا گیفی نے بتایا کے انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین(سی ڈی یو) نے پارٹی کے اندر خواتین امیدواروں کے لیے کوٹہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور پارٹی کے داخلی عہدوں پر بھی انہیں تعینات کیا جائے گا۔