1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

جرمنی طالبان سے بات چیت کرے، گرین پارٹی کی رہنما

19 اگست 2021

افغانستان میں طالبان اس وقت اپنے سیاسی و عسکری معاملات کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ حکومت سازی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ روس اور چین نے طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے مثبت اشارے دیے ہیں۔

Vor der Bundesdelegiertenkonferenz der Grünen - Annalena Baerbock
تصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance

جرمنی میں پارلیمانی انتخابات اگلے مہینے ستمبر میں ہوں گے۔ ان انتخابات کے لیے مختلف سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں نے الیکشن میں چانسلر کے عہدے کے لیے اپنے اپنے امیدواروں کے ناموں کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔

ماحول دوست سیاسی جماعت گرین پارٹی نے چانسلر کے عہدے کے لیے انالینا بیئربوک کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے انگیلا میرکل حکومت سے کہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرے۔

کابل میں افغان طالبان کے نمائندہ رہنماؤں اور سابق افغان صدر حامد کرزئی کے درمیان ملاقاتتصویر: Abdullah Abdullah/Handout/REUTERS

لوگوں کے تحفظ کا ایک طریقہ

انالینا بیئربوک کا کہنا ہے کہ انتہا پسند سوچ کے حامل طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنا بھی افغان عوام کو ایک طرح سے محفوظ بنانے کا عمل ہو سکتا ہے۔ بیئربوک نے جرمن ٹیلی وژن چینل ڈبلیو ڈی آر کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ خوفزدہ لوگوں میں حوصلہ پیدا کرنا ضروری ہے کیونکہ انہیں طالبان کی آمد موت کی دھمکی کی طرح محسوس ہو رہی ہے۔

طالبان کے خلاف مزاحمت، اب احمد مسعود کو امریکی اسلحہ درکار

انالینا بیئربوک نے یہ بھی واضح کیا کہ بات چیت سے مراد طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا نہیں کیونکہ یہ ایک جائز حکومت نہیں ہے۔ انہوں نے اس حکومت کو ایک ' دہشت گرد تنظیم‘ کی حکومت بھی کہا۔

بات چیت کا مقصد عام افراد کا تحفظ

انالینا بیئر بوک نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی واضح کیا کہ جرمن حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کا بنیادی مقصد عام لوگوں کی زندگیوں کو تحفط فراہم کرنا ہونا چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت بھی کابل میں بے شمار خواتین خوف زدہ ہو کر گھروں میں چھپے بیٹھے ہیں اور ایسے ہی بے شمار دوسرے افراد ہیں۔  بیئربوک نے ان خوف زدہ افراد میں کھانا پکانے والے باورچیوں کے ساتھ ساتھ ان مترجمین کا بھی خاص طور پر ذکر کیا، جو غیر ملکی افواج کے لیے کام کرتے تھے۔طالبان کے آنے کے بعد بھارت اور افغانستان کی تجارت رک گئی

انہوں نے کہا کہ ان مترجمین کے خاندانوں اور بچوں کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ گرین پارٹی کی رہنما نے کہا کہ ان افراد کی زندگیوں کو سلامت رکھنے اور محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش ضروری ہے۔

جرمن سفیر مارکوس پوٹسل چند ہفتے قبل قطر میں سابقہ افغان امن کمیٹی کے سربراہ عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کرتے ہوئےتصویر: Presse/Afghanistan Friedensrat

بات چیت کا سلسلہ جاری ہے

 دوسری جانب میرکل حکومت میں شامل جونیئر پارٹنر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے پارلیمانی لیڈر رالف میُوٹسنیش کا کہنا ہے کہ حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت پہلے سے شروع ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس بات چیت میں غیر ملکیوں کے محفوظ انخلا کے ساتھ ساتھ مقامی قوتوں کے حوالے سے بھی گفتگو کی جا رہی ہے۔ بات چیت کے اس سلسلے میں افغانستان میں جرمن سفیر مارکوس پوٹسل شریک ہیں۔

افغان مہاجرین کو فی الحال واپس بھیجنا ممکن نہیں، یورپی یونین

رالف میُوٹسنیش نے اس بات چیت کے تناظر میں خاص طور پر واضح کیا کہ اس سے مراد یہ نہ لیا جائے کہ طالبان کی حکمرانی کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے افغانستان میں ایک عبوری حکومت کے قیام کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔

ع ح / ا ا (ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں