جرمنی، فرانس اور اسپین مشترکہ فائٹر جیٹ پروجیکٹ پر رضامند
18 مئی 2021
جرمنی، فرانس اور اسپین نئی اور جدید ترین یورپی فائٹر جیٹ تیار کرنے کے لیے اربوں یورو کے ایک مشترکہ پروجیکٹ پر رضا مند ہو گئے ہیں۔ سن 2027 میں اس جنگی طیارے کی آزمائشی پرواز شروع ہو سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Piermont
اشتہار
گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری مذاکرات کے بعد جرمنی، فرانس اور اسپین نے پیر کے روزمستقبل کی ضروریات کی حامل 'جنگی فضائی نظام‘ (ایف سی اے ایس) پلیٹ فارم کے اگلے مرحلے کی تیاری کو آگے بڑھانے کا عہد کیا۔ یہ یورپ کا سب سے بڑا دفاعی پروجیکٹ ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت اگلے جنریشن کے جنگی طیارے، جیٹ اور ڈرونز کی تیاری نیز آرٹیفیشئل انٹلیجنس کی صلاحیتیوں سے آراستہ کمیونیکیشن نیٹ ورک، جسے ’کومبیٹ کلاوڈ‘ کے نام دیا گیا ہے، کی تیاری شامل ہے۔
یہ تینوں ممالک اب تک حقوق املاک دانش کے معاملے پر متفق نہیں ہوسکے تھے اورنیٹو کے ان اتحادیوں کے درمیان کام کے بوجھ کی تقسیم کے معاملے پر بھی اختلاف تھا۔
فرانسیسی وزیردفاع فلورنس پارلی نے ایک ٹوئٹ کرکے بتایا”فرانس، جرمنی اور اسپین اکیسویں صدی میں اپنی اور یورپ کی خود مختاری کے لیے سب سے اہم ترین آلے میں سے ایک تیار کر رہے ہیں۔"
ایف سی اے ایس پروجیکٹ یورپ کا سب سے بڑا دفاعی پروگرام ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ سن 2040 تک نئے جنگی طیارے فرانس کے رافیل اور جرمنی اور اسپین کے یورو فائٹرز کی جگہ لے لیں گے۔ اس پروجیکٹ کی مجموعی لاگت 100ارب یورو (121.4 ارب ڈالر) سے بھی زیادہ ہو جانے کی توقع ہے۔
کومبیٹ کلاوڈ سے جنگ کے دوران مختلف جنگی جہازوں کے مابین کمیونیکیشن میں کافی مدد ملے گیتصویر: Airbus
تینوں ملکوں نے پیر کے روز مذکورہ پروجیکٹ کے لیے سن 2024 تک مجموعی طورپر 3.5 ارب یورو (4.3 ارب امریکی ڈالر) فراہم کرنے کا عہد کیا۔ تینوں میں سے ہر ایک ملک اس رقم کا ایک تہائی فراہم کرے گا۔
جرمنی پر دباو
اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے سب سے زیادہ دباو جرمنی پر تھا کیونکہ ستمبر میں ملک میں انتخابات ہونے والے ہیں اور حکومت اس سے پہلے اس پروجیکٹ کے لیے مالی امداد کی پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرنا چاہتی تھی۔
جرمنی کی وزیر دفاع گریٹ کرامپ کارین باورنے اس کامیابی کی تعریف کرتے ہوئے کہا”مستقبل کے جنگی جہازوں کے ساتھ ہم یورپ میں اپنی صلاحیتوں، صنعت اور ٹیکنالوجی کو مستحکم کر رہے ہیں۔" انہوں نے بتایا کہ اس جدید ترین جنگی طیارے کا پروٹو ٹائپ سن 2027 میں پرواز کرے گا۔
جے ایف 17 لڑاکا ایئر کرافٹس بمقابلہ رفائل لڑاکا طیارے
03:06
This browser does not support the video element.
اس جنگی طیارے کو فرانس کی داسو ایوی ایشن اور یورپی طیارہ ساز کمپنی ایئر بس مل کر تیار کریں گے۔ فرانس کی وزیر فلورنس پارلی نے پیر کے روز کہا کہ اس طیارے کی آزمائشی پروازیں سن 2027 میں شروع ہوجائیں گی۔ اس سے قبل آزمائشی پروازیں سن 2026 میں شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
آزمائشی طیارے میں رفائل جنگی طیارے کے انجن لگائے جائیں گے تاکہ نئے جنگی طیارے کے لیے نیا انجن تیار کرنے کے لیے زیادہ وقت مل سکے۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی)
کنکارڈ طیارے کے پچاس سال
کنکارڈ کا نام سن کر ہی سحر انگیزی، وقار اور رفتار ذہن میں آتی ہے۔ آج سے پچاس سال قبل کنکارڈ پہلی مرتبہ فضاؤں میں بلند ہوا تھا۔ کنکارڈ آج بھی لوگوں کے تصور میں موجود ہے حالانکہ اسے آخری اڑان بھرے سالوں گزر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
پرکشش اور تیز
کنکارڈ طیارے نے اپنے ڈیزائن، منفرد انداز کے پروں اور آگے کی جانب جھکتی ہوئی’ناک‘کی وجہ سے مستقبل کے ایک تصوراتی جہاز کو حقیقت کا روپ دیا تھا۔ یہ جہاز اپنی نمایاں رفتار کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہوا۔ یہ دو ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
کنکارڈ طیارے کے بارے میں بظاہر سب کچھ اچھا دکھائی دیتاتھا۔ لیکن حیقیت میں اس جہاز میں سفر کرنا نا صرف بہت ہی مہنگا تھا بلکہ دوران پرواز اس جہاز میں شور بھی بہت ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ کنکارڈ ایندھن بھی بہت زیادہ استعمال کرتا تھا۔ یہ جہاز پچیس ہزار چھ سو لیٹر کیروسین فی گھنٹہ خرچ کرتا تھا اور اس میں صرف 128 مسافر بیٹھ سکتے تھے۔ معاشی طور پر یہ قابل عمل نہیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
پیرس سے نیو یارک
یہ تصویر فرانسیسی پائلٹ آندرے ترکاٹ کی ہے۔ انہیں 2 مارچ 1969ء کو کنکارڈ کی پہلی پرواز اڑانے کا اعزاز حاصل ہے۔ آٹھ سال بعد ایئر فرانس اور برٹش ایئر ویز نےکنکارڈ کی نیو یارک کی پروازیں شروع کیں۔ عام طور پر سات گھنٹے کا یہ سفر کنکارڈ میں ساڑھے تین گھنٹوں میں مکمل کر لیا جاتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images/J. Dieuzaide
فضا میں ستارے
کنکارڈ کو امیروں اور مشہور افراد کی وجہ سے جانا جانے لگا تھا۔ معروف ماڈل سنڈی کرافورڈ، کلاؤڈیا شیفر اور ٹینس کھلاڑی آندرے اگاسی تواتر کے ساتھ کنکارڈ کی مہنگی ترین خدمات سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے تھے۔ عام طور پر لندن یا پیرس سے نیو یارک کا ٹکٹ کئی ہزار ڈالرز کا ہوتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Sladky
شاندار کاک پٹ
یہ کنکارڈ طیارے کے کاک پٹ کی ایک تصویر ہے۔ یہ جہاز آج کل نیو یارک کے ایک میوزیم میں رکھا ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP PhotoG. Bull
مہنگا اور تنگ سفر
کنکارڈ کے پیسنجر کیبن میں جگہ بہت زیادہ کشادہ نہیں تھی، جیسا کہ 1968ء میں لی جانے اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن کم دورانیے کی پرواز میں مسافر محدود جگہ پر بھی اکتفا کر لیتے تھے۔
تصویر: imago/United Archives
روسیوں کے ساتھ مقابلہ
1954ء میں برطانیہ نے مسافروں کے لیے سپر سونک جہاز بنانا شروع کر دیا تھا۔ اس کے بعد فرانس، امریکا اور سابقہ سوویت یونین میں بھی ایسی کوششیں شروع ہو گئیں۔ 1968ء میں سال نو کے موقع پر روسی سپر سانک ’ٹوپولیو‘ نے اپنی اوّلین پرواز مکمل کی۔ یعنی کنکارڈ کی پہلی پرواز سے دو ماہ قبل۔ ٹوپولیو کو 1977ء میں گراؤنڈ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/S. Chirkiov
حادثہ
جولائی پچیس 2000ء کو کنکارڈ کے حوالے سے سب کچھ یکسر تبدیل ہو گیا۔ اس روز ایئر فرانس کی فلائٹ 4590 پرواز کے منٹ بعد ہی گر کر تباہ ہو گئی۔ رن وے پر پڑے ایک ٹکڑے نے پہلے پہیے کو پنکچر کیا اور پھر ایندھن کے ٹینک کو نقصان پہنحایا۔ اس کی وجہ کنکارڈ کا انجن فیل ہو گیا اور وہ ہوائی اڈے کے قریب ایک ہوٹل پر گر گیا۔
تصویر: AP/Toshihiko Sato
اختتام کا آغاز
کنکارڈ کے اس حادثے میں جہاز پر سوار ایک سو نو مسافر اور ہوٹل میں موجود چار افراد ہلاک ہوئے۔ اس حادثے کے بعد اس جہاز کے طویل المدتی استعمال کے حوالے سے شکوک و شبہات بھی بڑھ گئے اور اس صورتحال میں اس سپر سونک کو گراؤنڈ کرنےکا عمل تیز ہو گیا۔ کنکارڈ 2003ء میں آخری مرتبہ اڑا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایکس۔ پلین
2018ء میں امریکی خلائی مرکز ’ناسا‘ نے امریکی ادارے لاک ہیڈ مارٹن کوکنکارڈ طیارے کا نیا اور جدید ترین ماڈل تیار کرنے کا کہا۔ ایکس پلین نامی یہ طیارہ آواز سے بھی تیز رفتار سفر کرے گا اور وہ بھی سُپر سونک شور کے بغیر۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS
مستقبل؟
توقع ہے کہ ’ایکس پلین‘ کو سن2021 تک تیار کر لیا جائے گا۔ اس منصوبے کے حوالے سے بہت کم ہی معلومات سامنے آئی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس طیارے کے ذریعے پیرس سے نیویارک کا سفر صرف تین گھنٹے میں طے کر لیا جائے گا۔