جرمنی: مال برادر ٹرین سے پاکستانی اور افغانی مہاجر برآمد
صائمہ حیدر
23 نومبر 2016
جرمنی کے شہر میونخ میں فائر فائٹرز اور وفاقی پولیس کے اہلکاروں نے ریلوے یارڈ میں ایک مال بردار بوگی میں سے پانچ مہاجرین کو باہر نکالا ہے۔ ان تارکینِ وطن میں سے مبینہ طور پر ایک پاکستانی جبکہ چار افغانی باشندے ہیں۔
اشتہار
جرمن صوبے باویریا کے دارالحکومت میونخ میں پولیس نے آج بدھ کی سہ پہر بتایا ہے کہ ٹرین ڈرائیور کو گزشتہ روز اپنے کام کے اختتام پر ٹرین میں لدی مال برادر بوگیوں میں سے ایک میں سے مسلسل دستک اور الارم بجنے کی آوازیں سنائی دیں جس کے بعد سیل شدہ کنٹینر کو کھولنے کے لیے امدادی کارکنوں کو بلایا گیا۔
اِن امدادی کارکنوں نے کنٹینر کی سِیل کو کھولا تو اُنہیں وہاں پانچ مرد مِلے جو تارکینِ وطن تھے۔ ان مبینہ پناہ گزینوں میں سے چار کا تعلق افغانستان سے جبکہ پانچواں شخص پاکستان کا شہری نکلا۔
پولیس کے مطابق پانچوں تارکینِ وطن کی صحت اچھی تھی اور اُن کے پاس کھانے پینے کی چیزیں بھی تھیں۔ لہذاٰ ایمبولینس بلانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ جرمن وفاقی پولیس کے مطابق یہ مال برادر ٹرین ترکی سے جرمنی پہنچی تھی۔ ابتدائی طور پر اِس حوالے سے معلومات حاصل نہیں ہو سکیں کہ یہ مہاجرین کہاں اور کیسے کنٹینر میں سوار ہوئے۔ پولیس حکام تفتیشی عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حفاظتی وجوہات کی بنا پر فائر بریگیڈ کے عملے اور پولیس نے ٹرین میں لدے باقی چھتیس کنٹینرز کی جانچ پڑتال کی اور انسانوں کی بو سونگھنے والے ایک شکاری کتے کو بھی تلاش کے عمل میں شامل کیا گیا۔ پولیس کو مال برادر ٹرین میں مزید تارکینِ وطن تو نہیں ملے تاہم اُسے ایسے اشارے ضرور ملے ہیں کہ اِن کنٹینرز میں ماضی میں بھی افراد کو چھپا کر یورپ پہنچایا گیا ہو گا۔
مہاجرین جیل خانوں میں خوش
بہت سے دیگر مہاجرین کی طرح شازیہ لطفی بھی جیل خانے میں ہیں۔ انیس سالہ شازیہ نے کوئی جرم نہیں کیا لیکن وہ خانہ جنگی سے فرار ضرور ہوئی ہے۔ ہالینڈ میں بہت سے مہاجرین سابقہ جیل خانوں میں عارضی پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
ایک بستر، دو کرسیاں اور ایک کی بورڈ
ستائیس سالہ حامد کرمی اور اس کی پچیس سالہ اہلیہ فرشتے مورحیمی افغانستان سے فرار ہو کر یورپ پہنچے۔ انہیں ہارلیم کی ایک سابقہ جیل میں رہائش ملی ہے۔ حامد کی بورڈ بجاتا ہے جبکہ اس کی اہلیہ سر دھنتی ہے۔ معلوم نہیں کہ آیا یہ شادی شدہ جوڑا یورپ رہ سکے گا یا نہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
’ڈی کوپل‘ میں زندگی
ہارلیم کا سابقہ قید خانہ ’ڈی کوپل‘ کچھ یوں دکھتا ہے۔ سینکڑوں مہاجرین کو یہاں رہائش فراہم کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک پچیس سالہ رعد احسان بھی ہے، جو ایران سے یورپ پہنچا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
جیل تو جیل ہی ہوتی ہے
اگرچہ ڈچ حکام نے ان سابقہ جیل خانوں کی تعمیر نو کرتے ہوئے انہیں آرام دہ بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ یہاں قیام پذیر مہاجرین کا خیال رکھا جا سکے۔ تاہم جیل تو جیل ہی ہوتی ہے۔ اونچی دیواریں اور حفاظتی باڑیں حقیقی کہانی بیان کرتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
چائے کا کپ
حیات اللہ کا تعلق افغانستان سے ہے۔ وہ اس عارضی رہائش گاہ میں اپنے کمرے کے باہر بیٹھا چائے سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ تئیس سالہ یہ افغان مہاجر اس سابقہ جیل خانے میں خوش ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
صومالیہ سے ہارلیم تک
صومالی خاتون کو ایک علیحدہ کمرہ دیا گیا ہے۔ اجاوا محمد کی عمر اکتالیس سال ہے۔ وہ بھی یہاں دیگر مہاجرین کی طرح اپنی پناہ کی درخواست پر فیصلے کی منتظر ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
افغانستان، صومالیہ اور عراق۔۔۔
دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ یورپ پہنچے ہیں۔ وہ یہاں امن اور سکون کی زندگی بسر کرنے کے خواہاں ہیں۔ چوبیس سالہ یاسر حجی اور اس کی اٹھارہ سالہ اہلیہ گربیا کا تعلق عراق سے ہے۔ یہ خاتون یہاں کسی باربر یا بیوٹی سیلون نہیں جاتی بلکہ اس کا شوہر ہی اس کا خیال رکھتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
کپڑے دھونے کا انتظام
مہاجرین کو اس سابقہ جیل خانے میں تمام سہولیات حاصل ہیں۔ یہاں ان کے لیے واشنگ مشینیں بھی ہیں تاکہ وہ اپنے میلے کپڑوں کو دھو سکیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
ہم جنس پرستی کی سزا نہیں
یہ نوجوان مراکش سے آیا ہے۔ وہاں اس ہم جنس پرست نوجوان کو جان کا خطرہ تھا۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اس کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی ہے۔ لیکن یورپ میں اسے اپنے جسنی میلانات کے باعث اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
عبادت کا وقت
فاطمہ حسین کا تعلق عراق سے ہے۔ پینسٹھ سالہ یہ خاتون بھی شورش سے فرار ہو کر ہالینڈ پہنچی ہے۔ اس نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے فوٹو گرافر محمد محسین کو حالت نماز میں تصویر بنانے کی اجازت دی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Muheisen
آزادی سلب نہ کی جائے
چالیس سالہ ناران باتار کا تعلق منگولیا سے ہے۔ وہ ہارلیم کی سابقہ جیل کے باسکٹ بال کورٹ میں کھیل کر لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر اسے واپس روانہ نہیں کیا جاتا تو آزاد رہے گا۔