ایک جرمن عدالت نے اپنے دو نومولود بچوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاشیں ایک دہائی سے زائد عرصہ تک فریزر میں چھپائے رکھنے والی ماں کو ساڑھے نو برس قید کی سزا سنائی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/D. Karmann
اشتہار
جرمنی کے مشرق میں واقع ہالے شہرکی مقامی عدالت نے جمعرات پانچ اپریل کے روز ایک چھیالیس سالہ خاتون کو اپنے ہی دو نومولود بچوں کے قتل کے جرم میں ساڑھے نو برس قید کی سزا سنائی ہے۔
جرمنی کے پبلک براڈ کاسٹر ایم ڈی آر کے مطابق عدالت نے اس خاتون کو سزائے قید دینے کا فیصلہ اس خاتون کی ذہنی حالت جانچنے کی رپورٹ میں یہ ثابت ہونے کے بعد سنایا، جس میں بتایا گیا تھا کہ اسے کوئی نفسیاتی عارضہ لاحق نہیں ہے۔
جرمنی میں مردوں کی تدفین بھی ایک منافع بخش کاروبار
جرمنی میں مردوں کی تدفین کرنے والے چار ہزار سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں، جن کے اشتہارات اب انٹرنیٹ پر بھی نظر آتے ہیں۔ جرمنی میں مردوں کی تدفین کے مختلف طریقے، تفصیلات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Imago/W. Otto
جرمنی میں مردوں کی تدفین بھی ایک منافع بخش کاروبار
زندگی اور موت ابتدائے حیات سے ہی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کسی انسان کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات کی ادائیگی ہمیشہ ہی سے ایک پیشہ بھی رہی ہے۔ جرمنی میں اس وقت مردوں کی تدفین کرنے والے چار ہزار سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں، جن کے اشتہارات اب انٹرنیٹ پر بھی نظر آتے ہیں، کیونکہ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.Stratenschulte
کم قیمت تدفین، ایک مشکل عمل
مردوں کی تدفین کبھی صرف مذہبی روایات اور اخلاقی اقدار پر مبنی عمل ہوتا تھا۔ ماضی میں صرف خاندانی ادارے ہی یہ کام کرتے تھے۔ اب جرمنی میں یہ کام چار ہزار سے زائد کمپنیاں کرتی ہیں، جن کی مختلف شہروں میں متعدد شاخیں بھی ہیں۔ سب سے زیادہ آبادی والے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں کسی مردے کی تدفین کا انتظام 444 سے لے کر 950 یورو تک میں ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ عمل بہت مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔
تصویر: Imago/Werner Otto
میت کو جلانا اب ترجیحی طریقہ
جرمنی میں اوسطاﹰ 45 فیصد مردے دفنائے جاتے ہیں اور قریب 54 فیصد لاشیں جلا دی جاتی ہیں۔ 1999ء میں تابوت میں تدفین کا تناسب 60 فیصد تھا۔ کسی میت کو جلا کر راکھ لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہے، جو راکھ دان کو کسی قبرستان میں دفنا دیتے ہیں۔ راکھ دان کی تدفین تابوت کی تدفین سے کہیں سستی ہوتی ہے۔ جرمن ریاست بریمن تو شہریوں کو اپنے عزیزوں کی راکھ اپنے گھروں کے باغیچوں میں دفنانے کی اجازت بھی دے چکی ہے۔
تصویر: Kai Nietfeld/picture-alliance/dpa
تدفین پر لاگت چار ہزار یورو تک
جرمنی میں مردوں کی آخری رسومات کی ادائیگی مسلسل مہنگی ہوتے جانے کی ایک وجہ تدفین کے متنوع طریقے بھی ہیں۔ تابوت میں بند لاش کو قبر میں دفنانا، میت کا جلا دیا جانا، لاش کو سمندر میں بہا دینا یا پھر کسی خاندانی قبر میں تدفین، خرچے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مردے کے لواحقین کا منتخب کردہ طریقہ کار کیا ہے۔ اس طرح آخری رسومات کی ادائیگی پر لاگت ڈھائی ہزار یورو سے لےکر چار ہزار یورو تک ہو سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kembowski
تابوت یا راکھ دان
مردے کی تدفین پر لاگت کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ اسے دفنایا جائے گا یا جلایا جائے گا۔ میت جلا دی جائے، تو خرچہ کم۔ تب صرف راکھ دفنائی جاتی ہے۔ کبھی کبھی تدفین سستی ہوتی ہے لیکن سماجی تعزیتی تقریبات مہنگی۔ قبر میں دفنانے کے لیے بلدیاتی قبرستانوں میں انفرادی قبریں اکثر سالہا سال کے لیے کرائے پر لی جاتی ہیں۔ کسی قبر پر اگر سنگِ مرمر کا کتبہ بنوا کر لگوایا جائے تو تدفین مزید مہنگی ہو جاتی ہے۔
تصویر: DW/V. Weitz
شرحء اموات زیادہ، شرحء پیدائش کم
2016ء میں نو لاکھ گیارہ ہزار جرمنوں کا انتقال ہوا، جو 2015ء کے مقابلے میں 1.5 فیصد کم تھا۔ جرمنی میں 1972ء سے لے کر آج تک مجموعی شرحء اموات سالانہ شرحء پیدائش سے زیادہ رہی ہے۔ زیادہ شہریوں کی موت کے باعث تدفین کا کاروبار زیادہ ہوا تو وہ مہنگا بھی ہو گیا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ جرمن زبان میں اگر گوگل پر ’سستی تدفین‘ کو سرچ کیا جائے تو نتائج کی تعداد لاکھوں میں نکلتی ہے۔
تصویر: Imago/R. Oberhäuser
سرکاری مدد سے تدفین کے لیے ساٹھ ملین یورو
جرمنی میں ہزاروں خاندان ایسے بھی ہیں، جو اپنے کسی عزیز کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات کی ادائیگی کا خرچ خود برداشت نہیں کر سکتے۔ ایسے شہریوں کی مالی مدد مقامی حکومتیں کرتی ہیں، جنہوں نے اس مد میں 2017ء میں کُل 60 ملین یورو خرچ کیے۔ ان رقوم سے تقریباﹰ 22 ہزار شہریوں کی تدفین میں 750 یورو فی میت کی شرح سے سرکاری مدد کی گئی۔
تصویر: Imago/W. Otto
7 تصاویر1 | 7
اسٹیفی ایس نامی اس جرمن خاتون کا ہاں پہلے بچے کی پیدائش سن 2004 میں ہوئی تھی، جسے اس نے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش گھر میں رکھے ڈیپ فریزر میں چھپا دی تھی۔ سن 2008 میں اس کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی اور اسے بھی قتل کرنے کے بعد ماں نے اس کی لاش بھی فریزر میں چھپا دی تھی۔
ہسپتال کی رپورٹ کے مطابق دونوں بچے صحت مند حالت میں پیدا ہوئے تھے۔ نومولود بچوں کی لاشوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ان کی ہلاکت دم گھٹنے کے باعث ہوئی تھی۔
ان بچوں کی قتل کے بارے میں خبر سب سے پہلے گزشتہ برس اپریل کے مہینے میں اس خاتون کے ایک سابق بوائے فرینڈ کو اس وقت ملی تھیں جب وہ خاتون سے ملنے گیا اور اتفاق سے فریزر کھول کر دیکھا۔ تاہم اس شخص نے بچوں کے بارے میں پولیس کو اطلاع رواں برس جنوری کے مہینے میں دی تھی۔ خاتون کے شوہر پر بھی بچوں کے قتل میں معاونت کرنے کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔
خاتون کے وکیل نے عدالت میں دعویٰ کیا تھا کہ یہ پینتالیس سالہ عورت ذہنی بیماری کا شکار ہے اور اسے بالکل نہیں معلوم کہ اس نے کب اور کتنے بچے قتل کیے ہیں۔
جرمن معاشرے اور بورڈ گیمز کا تعلق صدیوں پرانا ہے اور اس کے ساتھ ایک تاریخ جڑی ہوئی ہے۔ جرمنی میں ’کھیلوں کی ثقافت‘ پر تاریخی تناظر میں ایک نگاہ۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈائس، شیطانی علامت سے گھر گھر تک
ایک عرصے تک جرمنی میں ڈائس یا چھکے کو ’شیطانی‘ علامت کے طور پر دیکھا جاتا تھا، تاہم اس کا استعمال قمار بازی وغیرہ میں چلتا رہا۔ اب ڈائس سے وابستہ کھیل جرمنی میں عام ہیں۔
تصویر: M. Schuppich
کھیلوں کی اہمیت
سن 1225 تا 1274 تھوماس اکوئناس نے بطور فلسفی اور مذہبی اسکالر کھیلوں کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کا اصرار تھا کہ کھیل دماغی راحت کا باعث بنتے ہیں۔ ان کو یقین تھا کہ کھیل بنیادی انسانی ضرورت ہیں۔ انہوں نے چرچ سے وابستہ افراد کے ساتھ ساتھ خود کو بھی کھیلوں سے جوڑے رکھا۔
تصویر: PD
کھیل پھر تنقید کی زد میں
فرانسِسکن راہب جان کاپیسترانو نے سن 1386 تا 1456 کھیلوں کو گناہ سے تعبیر کیا۔ انہوں نے عوامی سطح پر کھیلوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ نیورمبرگ میں 1452 میں تختے کے کھیل، ڈائس اور کارڈ گیمز متعارف کرائی گئیں تاہم کاپیسترانو نے اپنے خطبات میں ان کی سخت مخالفت کی۔
تصویر: LWL/Ansgar Hoffmann
فرانسیسی رنگ جرمنی میں
فرانسیسی رنگوں سے مزین حکم، چڑیا، اینٹ اور دل کے نشانات والے تاش کے پتے جرمنی میں استعمال ہونے لگے۔ اس سے قبل جرمن شہری تاش کے پتوں میں اینٹ کی جگہ گھنٹی، حکم کی جگہ پتا اور چڑیا کی بجائے بادام کی علامتیں استعمال کرتے تھے۔
تصویر: Residenzschloss Altenburg, Schloss- und Spielkartenmuseum
تاش کی تیاری ایک کاروباری شعبہ
15 ویں صدی میں کارڈز بنانے والوں کا کاروبار خوب عروج پر تھا۔ کارڈز کے ڈیزائن لکڑیوں میں کھود کر بعد میں ان سے چھپائی کا کام لیا جاتا تھا۔ 16 ویں اور 17 ویں صدی میں مخصوص جرمن پتوں کو فرانس تک میں پذیرائی حاصل تھی۔
تصویر: Residenzschloss Altenburg, Schloss- und Spielkartenmuseum
اسکاٹ کھیل جرمنی کی ایجاد
4 ستمبر 1813 کو پہلی مرتبہ اسکاٹ کھیل کا آغاز ہوا۔ شاف کوپف، الٹنبرگ اور تھیورنگیا کے جرمن علاقوں میں یہ کھیل سب سے پہلے کھیلا جانے لگا۔ تاش کے اس کھیل کو ابتدا میں اسکاٹ الٹنبرگ کا نام دیا گیا۔ اب بھی اسکاٹ کی بین الاقوامی کمیٹی الٹنبرگ ہی میں قائم ہے۔
تصویر: Residenzschloss Altenburg, Schloss- und Spielkartenmuseum
کھیلوں کے جھکاؤ کی جانب 19 ویں صدی بھی
19 صدی میں جرمنی میں کئی نئے کھیل متعارف کرائے گئے۔ ان میں سے کئی کھیل مختلف ناموں سے آج بھی کھیلے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی پہلے سے موجود کھیلوں میں معمولی تبدیلی کر کے انہیں جرمنی میں کھیلا جانے لگا۔ ہندوستان میں کھیلا جانے والا لوڈو ایسا ہی ایک کھیل ہے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images GmbH
بورڈ گیم، تعلیم کا ذریعہ بھی
بورڈ گیمز صرف تفریح کے لیے ہی نہیں ہوتیں بلکہ کھلاڑیوں کی معلومات میں اضافے کا بھی باعث بنتی ہیں۔ اس لیے تاریخ اور سفر کی معلومات سے آراستہ کھیل بھی متعارف کرائے گئے۔ 20 ویں صدی میں جرمن بورڈ گیمز کی برآمد کا سلسلہ شروع ہوا، جو آج بھی جاری ہے۔