جرمنی میں مبینہ بھارتی جاسوس کے خلاف مقدمے کی سماعت اگست میں
8 مئی 2020
جرمنی میں انڈین انٹیلیجنس کے لیے کام کرنے والے ایک مبینہ بھارتی جاسوس کے خلاف مقدمے کی سماعت اگست میں شروع ہو گی۔ یہ شخص جرمنی میں بھارتی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سکھوں اور کشمیریوں کی سرگرمیوں کی جاسوسی کرتا تھا۔
اشتہار
جرمنی کے مالیاتی مرکز فرینکفرٹ ام مائن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ملزم جرمنی میں رہنے والا ایک ایسا 54 سالہ بھارتی شہری ہے، جس کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات کی سماعت کا آغاز اگست میں فرینکفرٹ کی ایک اعلیٰ صوبائی عدالت کرے گی۔
جاسوسوں کو ان زہروں سے ہلاک کرنا ممکن ہے
کم از کم پانچ ایسے زہریلے مادے ہیں، جن کے استعمال سے جاسوسوں کو ہلاک کرنے کا پتہ ملتا ہے۔ ان میں سے چار کے استعمال کے مصدقہ ثبوت بھی موجود ہیں۔
تصویر: Imago/RelaXimages
پولونیم ٹُو ٹین
سن 2006 میں لندن میں مقیم روسی جاسوس الیگزانڈر لِٹیونینکو کو اسی کیمیائی مادے کے استعمال سے ہلاک کیا گیا تھا۔ برطانوی تفتیش کاروں کے مطابق یہ مواد سابقہ روسی جاسوس کے کسی ساتھی نے ملاقات کے دوران اُن کی چائے میں ملا دیا تھا۔ پولونیم ٹُو ٹین ایک ایسا کیمیائی مواد ہے، جو بازاروں میں دستیاب نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Driessen
رائسین
یہ بھی ایک انتہائی خطرناک زہر تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی معمولی مقدار سے کسی کو بھی ہلاک کرنا مشکل نہیں ہوتا کیونکہ رائسین میں شامل کیمیائی مادے انسان کے اعصابی و جسمانی نظام کو بتدریج مفلوج کرتا جاتا ہے۔ یہ زہر ارنڈ یا کیسٹر کے پودے کے بیج سے حاصل کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPhoto
وی ایکس
اس زہر کے استعمال سے گزشتہ برس شمالی کوریائی سپریم لیڈر کم جونگ اُن کے سوتیلے بھائی کم جونگ نام کو ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالم پور کے ہوائی اڈے پر قتل کیا گیا تھا۔ یہ بھی اعصابی نظام کو مفلوج کرنے والا خطرناک کیمیکل ہے۔ اس کی انتہائی معمولی مقدار کسی بھی بالغ یا بچے کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ ایسے اندازے لگائے گئے ہیں کہ شمالی کوریا کے پاس اس کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Chan
بوٹوکس
یہ ایک ایسا زہریلا مادہ ہے، جو حالیہ دور میں کوسمیٹک میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بوٹوکس (Clostridium Botulinum) کو اگر خوراک میں ڈال دیا جائے تو وہ انتہائی زہریلی ہو جاتی ہے۔ اس زہر کے استعمال کے بعد انسانی جسم کی صورت ٹیٹنس انفیکشن جیسی ہوسکتی ہے۔ اس کا استعمال انسانی اعصابی نظام مفلوج کر دیتا ہے۔ عراق میں سابق آمر صدام حسین کے دور میں بوٹوکس کو ایک ہتھیار کے طور پر تیار کیا گیا تھا۔
تصویر: DW
بی ٹی ایکس
یہ ایک انتہائی زہریلا مادہ ہے۔ اس کو سب سے پہلے لاطینی امریکا میں ناپید ہونے والی مینڈکوں کی نسل میں دریافت کیا گیا تھا۔ بی ٹی ایکس کی انتہائی قلیل مقدار ایک انسان کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ یہ انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد دل کے مَسل یا عضلات کو مفلوج کرنا شروع کر دیتی ہے۔ یہ زہر لیبارٹریز میں تیار نہیں کیا جا سکتا۔
تصویر: Fotolia/DWaEbP
5 تصاویر1 | 5
اس بارے میں جمعہ آٹھ مئی کو عدالت کی طرف سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق عدالت نے ملزم کے خلاف باقاعدہ کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسے اپنے خلاف جرمنی میں ریاستی تحفظ کو نقصان پہنچانے کے الزامات کا جواب دینا ہو گا۔
عدالت کی طرف سے جاری کردہ ایک دستاویز کے مطابق ملزم کا نام اس کے نجی کوائف کے تحفظ کے پیش نظر ظاہر نہیں کیا گیا۔
اس پر شبہ ہے کہ وہ بھارتی سیکرٹ سروس کے لیے ایک جاسوس کے طور پر خفیہ سرگرمیاں انجام دیتا تھا۔
اس بھارتی شہری پر سب سے سنگین الزام یہ ہے کہ وہ جنوری 2015ء سے جرمنی میں رہنے والے لیکن بھارت میں سکھ اپوزیشن کے حامی حلقوں اور کشمیریوں کی سیاسی تحریکوں سے وابستہ افراد اور ان کے رشتہ داروں کے بارے معلومات بھارتی حکام کو پہنچاتا رہا ہے۔
مختلف خبر رساں اداروں نے اس عدالتی بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مبینہ بھارتی جاسوس اپنی جمع کردہ معلومات اپنے ان سینئر افسروں کو مہیا کرتا تھا، جو فرینکفرٹ کے بھارتی قونصل خانے میں سفارتی اہلکاروں کے طور پر کام کرتے تھے۔
یہ نہیں بتایا گیا کہ اس ملزم کو جرمن پولیس نے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کب کیا تھا۔ اس کے خلاف مقدمے کی سماعت کا آغاز 25 اگست کو ہو گا اور اب تک اس کارروائی کی تکمیل کے لیے اگست کے اواخر سے لے کر وقفے وقفے سے مجموعی طور پر نو مختلف تاریخوں کا تعین کیا جا چکا ہے۔
مشہور رقاصہ اور ’ڈبل ایجنٹ‘ ماتا ہری کون تھیں؟
مشہور ڈچ رقاصہ اور ’جاسوسہ‘ مارگریٹا سیلے کی سزائے موت پر عملدرآمد کو سو برس بیت گئے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران جرمنی کے لیے جاسوسی کے الزام میں اس فنکارہ کو فرانسیسی فائرنگ اسکواڈ نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
’آنکھیں بند نہیں کرنا‘
اپنے نیم عریاں رقص کے باعث مشہور ہونے والی فنکارہ ماتا ہری کو اکتالیس برس کی عمر میں سزائے موت دی گئی تھی۔ اپنے فن اور فیشن کے ذوق کے باعث وہ پاپولر کلچر میں آج بھی زندہ ہیں۔ سو برس قبل پندرہ اکتوبر سن 1917 کو جب انہیں فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا گیا تھا تو انہوں نے شوٹنگ سے قبل اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے انکار کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/maxppp
بزنس مین کی بیٹی
مارگریٹا سیلے ایک ڈچ بزنس مین کی بیٹی تھیں۔ انہوں نے اپنی نوجوانی میں اپنی عمر سے کافی بڑے ایک فوجی افسر سے شادی کی تھی لیکن جلد انہیں احساس ہو گیا کہ وہ اسے زیادہ دیر نہیں چلا سکتیں۔ تب سن 1903 میں وہ رشتہ ازداوج کو توڑتے ہوئے (انڈونیشیا سے) فرانس چلی گئیں۔ اس وقت ان کی عمر صرف ستائیس برس تھی۔
تصویر: picture-alliance/Heritage-Image
خالی ہاتھ فرانس میں
جب خوبرو مارگریٹا پیرس پہنچیں تو ان کے ہاتھ بالکل خالی تھے۔ تب انہوں نے ایک کلب میں نیم برہنہ رقص کرنا شروع کیا اور اپنا نام بدل کر ماتا ہری رکھ لیا۔ جلد ہی وہ مشہور ہو گئیں اور یورپ بھر میں ان کا چرچا ہو گیا۔ انیس سو دس کی دہائی میں وہ بطور فنکارہ ایک معروف شخصیت کا روپ دھار چکی تھیں۔
واشنگٹن ٹائمز نے سن دو ہزار سات میں لکھا تھا، ’’اپنے وقت میں وہ میڈونا کی طرح مشہور و معروف تھیں۔‘‘ اپنی خوبصورتی اور اداؤں سے انہوں نے اس وقت کے بڑے بڑے فوجی افسران اور سفارتکاروں سے تعلقات قائم کر لیے تھے۔ تب انہیں مال و زر کی کوئی فکر نہیں رہی تھی۔
تصویر: Getty Images
’دلربا معشوق‘
پندرہ اکتوبر سن انیس سو سترہ میں جب ماتا ہری کو جرمن افواج کے لیے جاسوسی کے الزام میں فرانس میں سزائے موت سنائی گئی تھی تو یورپ بھر میں مقتدر حلقے انہیں جانتے تھے۔ کہا جتا ہے کہ ہالینڈ، فرانس اور جرمنی سمیت دیگر یورپی ممالک میں وہ دلربا کے نام سے مشہور تھیں۔
تصویر: picture-alliance/United Archiv
جسم فروشی پر مجبور
سن انیس سو چودہ میں البتہ ان کی شہرت کچھ مانند پڑ گئی تھی۔ اس زمانے میں وہ پیرس میں ایک کال گرل کے طور پر کام کرنا شروع ہو گئی تھیں۔ ان کا کام تب وزراء اور دیگر بڑی شخصیات کی جنسی ہوس کو پورا کرنا ہی رہ گیا تھا۔ اب ان کے پاس مال و دولت بھی کم ہو گئی تھی۔ آرام و آسائش سے زندگی گزارنے والی ماتا ہری کے لیے یہ ایک بڑی تکلیف دہ بات تھی۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
جاسوسی کا آغاز
سن انیس سو سولہ میں ماتا ہری نے رقوم کی خاطر فرانس کی جاسوسی کرنے کی حامی بھری۔ تب ایک جرمن سفارتکار نے انہیں پیشکش کی تھی کہ اگر وہ فرانسیسی راز جرمن حکومت کو فراہم کریں گی تو ان کے تمام قرضہ جات ادا کر دیے جائیں گے۔ ماتا ہری کے لیے اس مشکل وقت میں اور کیا راستہ ہو سکتا تھا؟
تصویر: picture-alliance/akg-images
’ڈبل ایجنٹ‘
بعد ازاں ماتا ہری نے فرانسیسی خفیہ ایجنسیوں کو پیشکش کر دی کہ وہ ان کے لیے بھی جاسوسی کا کام کر سکتی ہیں۔ اس وقت فرانسیسی حکام کو پہلے سے شبہ ہو چکا تھا کہ یہ خوبرو خاتون جرمنوں کے لیے جاسوسی کر رہی ہے۔ اس کے باوجود فرانسیسی خفیہ اداروں نے انہیں کئی مشن دیے لیکن اس دوران ماتا ہری کی نگرانی جاری رہی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
شک یقین میں بدل گیا
فرانسیسی خفیہ اداروں کا شک اس وقت یقین میں بدلا، جب ماتا ہری نے پہلی عالمی جنگ کے دوران فیٹل کے مشرقی محاذ پر جانے کی درخواست کی۔ اس وقت وہاں ایک نیا فوجی ہوائی اڈہ تعمیر کیا جا رہا تھا۔ ماتا ہری کے مطابق وہ وہاں اپنے ایک روسی فوجی دوست سے ملنے جانا چاہتی تھی۔
جنوری سن انیس سو سترہ میں فرانسیسی حکام کو یقین ہو گیا کہ ماتا ہری جرمن فوج کے لیے جاسوسی کر رہی ہے۔ جرمن فوج نے ماتا ہری کا نام ایجنٹ H21 رکھا ہوا تھا۔ تب ہری کو ڈبل ایجنٹ ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں پچیس جولائی سن انیس سو سترہ کو سزائے موت سنائی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ پندرہ اکتوبر سن انیس سو سترہ کو جب سزائے موت پر عملدرآمد کی خاطر ماتا ہری کو فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کیا گیا تو انہوں نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھنے سے انکار کر دیا اور شوٹنگ سے پہلے انہوں نے فائرنگ اسکواڈ کی طرف ’فلائینگ کس‘ بھی کیے۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
پاپولر کلچر
ماتا ہری کی زندگی پر ادب بھی تخلیق کیا گیا اور کئی فلمیں بھی بنائی گئیں۔ تحقیقات کے بعد ابھی تک واضح نہیں ہو سکا ہے کہ ماتا ہری نے ڈبل ایجنٹ کے طور پر جرمن اور فرانسیسی افواج کو کیا کیا معلومات فراہم کی تھیں۔ اب بھی کئی حلقے ماتا ہری کو بے قصور قرار دیتے ہیں۔