جرمن دارالحکومت برلن کی ایک مسجد پر آتش گیر مادہ پھینکتے ہوئے آگ لگا دی گئی۔ پولیس کے مطابق برلن کے رائنکن ڈورف علاقے میں واقع اس مسجد کو شدید نقصان پہنچا ہے لیکن کوئی بھی شخص زخمی نہیں ہوا۔
اشتہار
پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ مسجد پر آتش گیر مادہ پھینکنے والوں کا تعلق کس گروپ سے ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اتوار کے روز آتش گیر مادہ پھینکنے کے اس واقعے میں تین کم عمر لڑکے ملوث ہو سکتے ہیں۔ اس مناسبت سے تحقیقی عمل شروع ہے لیکن اندازوں کے مطابق اس حملے کے پس پردہ سیاسی محرکات ہو سکتے ہیں۔ متاثرہ مسجد ترک حکومت کی ایک مذہبی تنظیم دیتیپ کے زیر انتظام ہے۔
مسجد انتظامیہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق مسجد کا اندرونی حصہ تقریبا مکمل طور پر خاکستر ہو گیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ حالیہ دو ایام کے دوران دیگر دو مقامات پر واقع مساجد پر بھی آتش گیر مادے پھینکے جا چکے ہیں۔ پولیس میشیڈے اور لاؤفن نامی علاقوں میں پیش آنے والے ان دونوں واقعات کی بھی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔
جرمن حکومت کی طرف سے حال ہی میں جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق گزشتہ برس اس یورپی ملک میں مسلمان مردوں، خواتین اور مساجد پر قریب ایک ہزار حملے کیے گئے جبکہ ماہرین کے مطابق اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق ان حملوں میں ملوث تقریبا سبھی ملزمان کا تعلق دائیں بازو کے انتہاپسندوں سے تھا۔
ان ’حملوں‘ میں مسلمانوں کو لکھے گئے دھمکی آمیز خطوط، اسکارف پہننے والی مسلم خواتین یا پھر عوامی مقامات پر مسلمان مردوں کے خلاف کسے جانے والے نفرت انگیز جملے بھی شامل ہیں۔ گزشہ برس کیے گئے ان حملوں کے نتیجے میں کم از کم تینتیس افراد زخمی بھی ہوئے۔
جرمنی میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے حملوں کے اعدا و شمار جمع کرنے کا سلسلہ گزشتہ برس شروع کیا گیا تھا اور اسی وجہ سے ان کا ماضی کے کسی سال سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
قبل ازیں’دی لِنکے‘ نامی سیاسی جماعت سے وابستہ جرمنی کے داخلی سیاسی امور کی ماہر خاتون سیاستدان اولا ژیلپکے کا کہنا تھا، ’’اسلام دشمن اب گلیوں سے نکل کر پارلیمان تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ پارلیمانی اسٹیج کو استعمال کرتے ہوئے جرمنی میں مسلمانوں کی زندگی کے خلاف سماجی ماحول کو زہریلا بنا رہے ہیں۔‘‘
جرمنی میں مساجد کے دروازے سب کے لیے کھل گئے
جرمنی میں قریب ایک ہزار مساجد کے دروازے تین اکتوبر کو تمام افراد کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ یہی دن سابقہ مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے اتحاد کی سال گرہ کا دن بھی ہے۔
تصویر: Ditib
جرمن مساجد، جرمن اتحاد
جرمنی میں مساجد کے دوازے سب کے لیے کھول دینے کا دن سن 1997 سے منایا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک اس روز منایا جاتا ہے، جس روز جرمنی بھر میں یوم اتحاد کی چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن کا تعین جان بوجھ کر مسلمانوں اور جرمن عوام کے درمیان ربط کی ایک علامت کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے مطابق آج کے دن قریب ایک لاکھ افراد مختلف مساجد کا دورہ کریں گے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
مساجد سب کے لیے
آج کے دن مسلم برادری مساجد میں آنے والوں کو اسلام سے متعلق بتاتی ہے۔ مساجد کو کسی عبادت گاہ سے آگے کے کردار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ مسلم برادری کے میل ملاپ اور سماجی رابط کی جگہ بھی ہے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
بندگی اور ضوابط
اسلام کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے بندگی کے طریقے اور ضوابط بتائے جاتے ہیں۔ انہی ضوابط میں سے ایک یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتار دیے جائیں۔ یہ عمل صفائی اور پاکیزگی کا عکاس بھی ہے کیوں کہ نمازی نماز کے دوران اپنا ماتھا قالین پر ٹیکتے ہیں، اس لیے یہ جگہ ہر صورت میں صاف ہونا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
تعمیرات اور تاریخ
زیادہ تر مساجد میں آنے والے غیرمسلموں کو مسجد بھر کا دورہ کرایا جاتا ہے۔ اس تصویر میں کولون کے نواحی علاقے ہیُورتھ کی ایک مسجد ہے، جہاں آنے والے افراد مسلم طرز تعمیر کی تصاویر لے سکتے ہیں۔ اس طرح ان افراد کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جرمنی میں مسلمان کس طرح ملتے اور ایک برادری بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
روحانیت کو سمجھنے کی کوشش
ڈوئسبرگ کی یہ مرکزی مسجد سن 2008ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا رخ کرنے والوں کو نہ صرف مسجد کے مختلف حصے دکھائے جاتے ہیں، بلکہ یہاں آنے والے ظہر اور عصر کی نماز ادا کرنے والے افراد کو دوران عبادت دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اس کے بعد مہمانوں کو چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
عبادات کی وضاحت
مسلمانوں کے عبادت کے طریقہ کار کو متعارف کرانا تین اکتوبر کو منائے جانے والے اس دن کا ایک اور خاصا ہے۔ تاہم مسجد کا نماز کے لیے مخصوص حصہ یہاں آنے والے غیرمسلموں کے لیے نہیں ہوتا۔ اس تصویر میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hanschke
تحفے میں تسبیح
اس بچے کے پاس ایک تسبیح ہے، جو اسے فرینکفرٹ کی ایک مسجد میں دی گئی۔ نمازی اس پر ورد کرتے ہیں۔ تسبیح کو اسلام میں مسبحہ بھی کہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بین الثقافتی مکالمت
جرمن مساجد اپنے دروازے مختلف دیگر مواقع پر بھی کھولتی ہیں۔ مثال کے طور پر جرمن کیتھولک کنوینشن کی طرف سے کیتھولک راہبوں اور راہباؤں کو مساجد دکھائی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں جرمن شہر من ہائم کی ایک مسجد میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے مواقع مسیحیت اور اسلام کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ ہوار کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط فہمیوں کا خاتمہ
ڈریسڈن شہر کی مساجد ثقافتی اقدار کی نمائش بھی کرتی ہیں۔ المصطفیٰ مسجد نے اس دن کے موقع پر منعقدہ تقریبات کی فہرست شائع کی ہے۔ ان میں اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن سے متعلق لیکچرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ یہاں مسجد میں قالینوں پر بیٹھ کر مختلف موضوعات پر بات چیت بھی کرتے ہیں۔