یورپی یونین کے ایک پروگرام کے تحت جرمنی شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے مزید دس ہزار تارکین وطن کو اپنے ہاں قبول کرے گا۔ یورپی یونین میں تارکین وطن کو پناہ دینے کے اعتبار سے جرمنی سرفہرست ہے۔
اشتہار
جرمن حکومت نے رواں ہفتے یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت دیمیتریس آوراموپولوس کے ساتھ ایک منصوبے پر اتفاق کر لیا، جس کے تحت مزید ہزاروں تارکین وطن کو جرمنی میں آباد کیا جائے گا۔
جرمنی: زیر تربیت مہاجرین کا تعلق ان ممالک سے ہے
گزشتہ برس مجموعی طور پر نو ہزار تین سو تارکین وطن کو مختلف جرمن کمپنیوں میں فنی تربیت (آؤس بلڈُنگ) کے حصول کی اجازت ملی۔ زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مندرجہ ذیل ممالک سے ہے.
تصویر: D. Kaufmann
۱۔ افغانستان
افغانستان سے تعلق رکھنے والے 3470 مہاجرین اور تارکین وطن مختلف جرمن کمپنوں میں زیر تربیت ہیں۔
تصویر: DW/A. Grunau
۲۔ شام
جرمنی میں شامی مہاجرین تعداد کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہیں، لیکن زیر تربیت مہاجرین کی تعداد محض ستائیس سو رہی، جو افغان پناہ گزینوں سے بھی کم ہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
۳۔ عراق
ملک بھر کی مختلف کمپنیوں میں آٹھ سو عراقی مہاجرین تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے سات سو دس تارکین وطن کو فنی تربیت کے حصول کے لیے جرمن کمپنیوں نے قبول کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
۵۔ ایران
جرمنی میں پناہ کے متلاشی ایرانیوں کی تعداد تو زیادہ نہیں ہے لیکن فنی تربیت حاصل کرنے والے ایرانی تارکین وطن تعداد (570) کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ پاکستان
چھٹے نمبر پر پاکستانی تارکین وطن آتے ہیں اور گزشتہ برس ساڑھے چار سو پاکستانی شہریوں کو جرمن کمپنیوں میں انٹرنشپ دی گئی۔
تصویر: DW/R. Fuchs
۷۔ صومالیہ
اس حوالے سے ساتواں نمبر صومالیہ کے تارکین وطن کا ہے۔ صومالیہ کے 320 تارکین وطن کو فنی تربیت فراہم کی گئی۔
تصویر: DW/A. Peltner
۸۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 280 پناہ گزینوں کو گزشتہ برس جرمنی میں فنی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔
جرمنی کے فُنکے میڈیا گروپ نے جمعرات کے روز اپنی رپورٹوں میں بتایا کہ دیگر یورپی ممالک نے بھی اس منصوبے کے تحت قریب چالیس ہزار تارکین وطن کو پناہ دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ یورپی کمشنر برائے مہاجرت رواں ہفتے جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے ساتھ برلن میں ایک ملاقات بھی کرنے والے ہیں۔ آوراموپولوس کا کہنا ہے، ’’جرمن حکومت ایک بار پھر بین الاقوامی یک جہتی کے لیے سب سے آگے ہے۔‘‘
اس پروگرام کا اعلان گزشتہ برس موسم گرما میں کیا گیا تھا، جس کے تحت ایسے ممالک جہاں کے شہریوں کو حقیقی معنوں میں سیاسی پناہ کی ضرورت ہے، انہیں اپنی زندگیاں خطرات میں ڈال کر یورپ پہنچنے کی کوششیں کرنے سے روکنے کے لیے براہ راست ان کے آبائی ممالک سے یورپ لا کر بسایا جائے گا۔
بتایا گیا ہے کہ اگلے برس کے موسم خزاں تک اس پروگرام کے تحت پچاس ہزار کے قریب تارکین وطن کو یورپی یونین میں بسایا جائے گا، جن میں بڑی تعداد شمالی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہو گی۔ یورپی یونین نے اس پروگرام کے لیے پانچ سو ملین ڈالر کی خطیر رقم مختص کی ہے۔
آوراموپولوس نے جرمنی سے اپیل کی ہے کہ وہ مہاجرین کے بحران کے دنوں میں اپنی بیرونی سرحدوں پر دوبارہ نافذ کردہ جانچ پڑتال کے نظام کو اب ختم کر دے۔ یہ بات اہم ہے کہ سن 2015 میں قریب نو لاکھ تارکین وطن جرمنی پہنچے تھے۔
جرمنی میں مردوں کی تدفین بھی ایک منافع بخش کاروبار
جرمنی میں مردوں کی تدفین کرنے والے چار ہزار سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں، جن کے اشتہارات اب انٹرنیٹ پر بھی نظر آتے ہیں۔ جرمنی میں مردوں کی تدفین کے مختلف طریقے، تفصیلات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Imago/W. Otto
جرمنی میں مردوں کی تدفین بھی ایک منافع بخش کاروبار
زندگی اور موت ابتدائے حیات سے ہی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کسی انسان کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات کی ادائیگی ہمیشہ ہی سے ایک پیشہ بھی رہی ہے۔ جرمنی میں اس وقت مردوں کی تدفین کرنے والے چار ہزار سے زائد ادارے کام کر رہے ہیں، جن کے اشتہارات اب انٹرنیٹ پر بھی نظر آتے ہیں، کیونکہ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.Stratenschulte
کم قیمت تدفین، ایک مشکل عمل
مردوں کی تدفین کبھی صرف مذہبی روایات اور اخلاقی اقدار پر مبنی عمل ہوتا تھا۔ ماضی میں صرف خاندانی ادارے ہی یہ کام کرتے تھے۔ اب جرمنی میں یہ کام چار ہزار سے زائد کمپنیاں کرتی ہیں، جن کی مختلف شہروں میں متعدد شاخیں بھی ہیں۔ سب سے زیادہ آبادی والے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں کسی مردے کی تدفین کا انتظام 444 سے لے کر 950 یورو تک میں ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ عمل بہت مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔
تصویر: Imago/Werner Otto
میت کو جلانا اب ترجیحی طریقہ
جرمنی میں اوسطاﹰ 45 فیصد مردے دفنائے جاتے ہیں اور قریب 54 فیصد لاشیں جلا دی جاتی ہیں۔ 1999ء میں تابوت میں تدفین کا تناسب 60 فیصد تھا۔ کسی میت کو جلا کر راکھ لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہے، جو راکھ دان کو کسی قبرستان میں دفنا دیتے ہیں۔ راکھ دان کی تدفین تابوت کی تدفین سے کہیں سستی ہوتی ہے۔ جرمن ریاست بریمن تو شہریوں کو اپنے عزیزوں کی راکھ اپنے گھروں کے باغیچوں میں دفنانے کی اجازت بھی دے چکی ہے۔
تصویر: Kai Nietfeld/picture-alliance/dpa
تدفین پر لاگت چار ہزار یورو تک
جرمنی میں مردوں کی آخری رسومات کی ادائیگی مسلسل مہنگی ہوتے جانے کی ایک وجہ تدفین کے متنوع طریقے بھی ہیں۔ تابوت میں بند لاش کو قبر میں دفنانا، میت کا جلا دیا جانا، لاش کو سمندر میں بہا دینا یا پھر کسی خاندانی قبر میں تدفین، خرچے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مردے کے لواحقین کا منتخب کردہ طریقہ کار کیا ہے۔ اس طرح آخری رسومات کی ادائیگی پر لاگت ڈھائی ہزار یورو سے لےکر چار ہزار یورو تک ہو سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kembowski
تابوت یا راکھ دان
مردے کی تدفین پر لاگت کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ اسے دفنایا جائے گا یا جلایا جائے گا۔ میت جلا دی جائے، تو خرچہ کم۔ تب صرف راکھ دفنائی جاتی ہے۔ کبھی کبھی تدفین سستی ہوتی ہے لیکن سماجی تعزیتی تقریبات مہنگی۔ قبر میں دفنانے کے لیے بلدیاتی قبرستانوں میں انفرادی قبریں اکثر سالہا سال کے لیے کرائے پر لی جاتی ہیں۔ کسی قبر پر اگر سنگِ مرمر کا کتبہ بنوا کر لگوایا جائے تو تدفین مزید مہنگی ہو جاتی ہے۔
تصویر: DW/V. Weitz
شرحء اموات زیادہ، شرحء پیدائش کم
2016ء میں نو لاکھ گیارہ ہزار جرمنوں کا انتقال ہوا، جو 2015ء کے مقابلے میں 1.5 فیصد کم تھا۔ جرمنی میں 1972ء سے لے کر آج تک مجموعی شرحء اموات سالانہ شرحء پیدائش سے زیادہ رہی ہے۔ زیادہ شہریوں کی موت کے باعث تدفین کا کاروبار زیادہ ہوا تو وہ مہنگا بھی ہو گیا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ جرمن زبان میں اگر گوگل پر ’سستی تدفین‘ کو سرچ کیا جائے تو نتائج کی تعداد لاکھوں میں نکلتی ہے۔
تصویر: Imago/R. Oberhäuser
سرکاری مدد سے تدفین کے لیے ساٹھ ملین یورو
جرمنی میں ہزاروں خاندان ایسے بھی ہیں، جو اپنے کسی عزیز کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات کی ادائیگی کا خرچ خود برداشت نہیں کر سکتے۔ ایسے شہریوں کی مالی مدد مقامی حکومتیں کرتی ہیں، جنہوں نے اس مد میں 2017ء میں کُل 60 ملین یورو خرچ کیے۔ ان رقوم سے تقریباﹰ 22 ہزار شہریوں کی تدفین میں 750 یورو فی میت کی شرح سے سرکاری مدد کی گئی۔
تصویر: Imago/W. Otto
7 تصاویر1 | 7
یورپی یونین کا شینگن زون شہریوں کو آزادانہ نقل و حرکت کی ضمانت دیتا ہے، تاہم مہاجرین کے بحران کے تناظر میں مختلف یورپی ممالک نے اپنی سرحدوں پر جانچ پڑتال کا عمل دوبارہ متعارف کرا دیا تھا، جس کے تحت ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہونے والے افراد سے اب سفری اور شناختی دستاویزات طلب کی جاتی ہیں۔ یورپی کمشنر نے کہا، ’’اب ہمیں تیزی سے شینگن نظام کی طرف واپس لوٹنا چاہیے۔‘‘
جرمنی کی جانب سے اس سے قبل اعلان کیا گیا تھا کہ وہ آسٹریا کے ساتھ اپنی قومی سرحد پر جانچ پڑتال کا موجودہ عمل جاری رکھنا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے جانچ پڑتال کے لیے اجازت مئی کے آخر تک ہے، تاہم جرمن حکومت اس مدت میں توسیع چاہتی ہے۔