رواں برس کا آغاز الرحمان مسجد کے نمازیوں کے لیے کوئی خاص اچھا نہیں تھا۔ جرمن شہر ویزل کی اس مسجد کے شیشے توڑ دیے گئے تھے جبکہ مسجد کے صحن سے گیس کی بوتلیں بھی ملیں۔ یہ ثقافتی مرکز کسی دھماکے سے بال بال بچا۔
اشتہار
جرمن اخبار 'نوئس ڈوئچلنڈ‘ کی جانب سے ایک خصوصی رپورٹ شائع کی گئی ہے، جس کے مطابق جرمنی میں مساجد پر ہونے والے حملوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق الرحمان مسجد کی طرح ہونے والے حملے جرمنی میں معمول بنتے جا رہے ہیں۔ مساجد پر ہونے والے حملوں کے اعداد و شمار جمع کرنے والی ویب سائٹ 'برانڈ آئلش‘ کے مطابق سن دو ہزار انیس میں 110 مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔ مجموعی طور پر ایک ہفتے کے دوران مسلمانوں کی کم از کم دو عبادت گاہیں نشانے پر رہیں۔ مساجد پر ہونے والے حملوں کے حوالے سے اعداد و شمار سن 2014ء سے جرمنی میں جمع کیے جا رہے ہیں اور گزشتہ برس ہونے والے حملے اب تک سب سے زیادہ حملے تھے۔
جرمنی میں انسداد امتیازی سلوک کا ادارہ فیئر بھی اس حوالے سے اعداد وشمار جمع کرتا ہے۔ اس ادارے کا مقصد نہ صرف جرمن اداروں کو معاونت فراہم کرنا بلکہ میڈیا کو بھی آگاہی فراہم کرنا ہے۔
جرمن اخبار 'نوئس ڈوئچلنڈ‘ کے مطابق 'برانڈ آئلش‘ ویب سائٹ کے اعداد وشمار دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جرمنی میں آباد مسلم کمیونٹی کو کن خطرات کا سامنا ہے۔ سب سے زیادہ حملے گزشتہ برس جون میں ہوئے۔ اس ماہ چوبیس مساجد کو نشانہ بنایا گیا اور یہ تقریبا ہر روز ایک حملہ بنتا ہے۔ اسی مہینے جرمن شہروں کولون، ایزرلون میونخ، ڈوئسبرگ، مائنز اور من ہائیم کی مساجد کو بموں کی دھمکیاں موصول ہوئیں۔ باڈ ہومبرگ، مینڈن اور کولون میں واقع اسلامی اداروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی۔ اسی طرح میونسٹر اور شلیسویگ میں نامعلوم افراد نے مساجد میں رکھی ہوئی قرآن کی کاپیوں کو بھی پھاڑ دیا۔
'برانڈ آئلش‘ ویب سائٹ کے مطابق مساجد پر ہونے والے حملوں کی اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیوں کہ ہر واقعہ رپورٹ نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے رجسٹر کیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں اس ویب سائٹ نے ننانوے مساجد پر حملے ریکارڈ کیے تھے جبکہ جرمن وزارت داخلہ نے ایسے حملوں کی تعداد اڑتالیس بتائی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ متاثرین عموما پولیس کے پاس ایسی شکایتیں درج کروانے سے گریز کرتے ہیں۔
ا ا / ع ا
جرمنی میں مساجد کے دروازے سب کے لیے کھل گئے
جرمنی میں قریب ایک ہزار مساجد کے دروازے تین اکتوبر کو تمام افراد کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ یہی دن سابقہ مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے اتحاد کی سال گرہ کا دن بھی ہے۔
تصویر: Ditib
جرمن مساجد، جرمن اتحاد
جرمنی میں مساجد کے دوازے سب کے لیے کھول دینے کا دن سن 1997 سے منایا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک اس روز منایا جاتا ہے، جس روز جرمنی بھر میں یوم اتحاد کی چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن کا تعین جان بوجھ کر مسلمانوں اور جرمن عوام کے درمیان ربط کی ایک علامت کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے مطابق آج کے دن قریب ایک لاکھ افراد مختلف مساجد کا دورہ کریں گے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
مساجد سب کے لیے
آج کے دن مسلم برادری مساجد میں آنے والوں کو اسلام سے متعلق بتاتی ہے۔ مساجد کو کسی عبادت گاہ سے آگے کے کردار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ مسلم برادری کے میل ملاپ اور سماجی رابط کی جگہ بھی ہے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
بندگی اور ضوابط
اسلام کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے بندگی کے طریقے اور ضوابط بتائے جاتے ہیں۔ انہی ضوابط میں سے ایک یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتار دیے جائیں۔ یہ عمل صفائی اور پاکیزگی کا عکاس بھی ہے کیوں کہ نمازی نماز کے دوران اپنا ماتھا قالین پر ٹیکتے ہیں، اس لیے یہ جگہ ہر صورت میں صاف ہونا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
تعمیرات اور تاریخ
زیادہ تر مساجد میں آنے والے غیرمسلموں کو مسجد بھر کا دورہ کرایا جاتا ہے۔ اس تصویر میں کولون کے نواحی علاقے ہیُورتھ کی ایک مسجد ہے، جہاں آنے والے افراد مسلم طرز تعمیر کی تصاویر لے سکتے ہیں۔ اس طرح ان افراد کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جرمنی میں مسلمان کس طرح ملتے اور ایک برادری بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
روحانیت کو سمجھنے کی کوشش
ڈوئسبرگ کی یہ مرکزی مسجد سن 2008ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا رخ کرنے والوں کو نہ صرف مسجد کے مختلف حصے دکھائے جاتے ہیں، بلکہ یہاں آنے والے ظہر اور عصر کی نماز ادا کرنے والے افراد کو دوران عبادت دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اس کے بعد مہمانوں کو چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
عبادات کی وضاحت
مسلمانوں کے عبادت کے طریقہ کار کو متعارف کرانا تین اکتوبر کو منائے جانے والے اس دن کا ایک اور خاصا ہے۔ تاہم مسجد کا نماز کے لیے مخصوص حصہ یہاں آنے والے غیرمسلموں کے لیے نہیں ہوتا۔ اس تصویر میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hanschke
تحفے میں تسبیح
اس بچے کے پاس ایک تسبیح ہے، جو اسے فرینکفرٹ کی ایک مسجد میں دی گئی۔ نمازی اس پر ورد کرتے ہیں۔ تسبیح کو اسلام میں مسبحہ بھی کہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بین الثقافتی مکالمت
جرمن مساجد اپنے دروازے مختلف دیگر مواقع پر بھی کھولتی ہیں۔ مثال کے طور پر جرمن کیتھولک کنوینشن کی طرف سے کیتھولک راہبوں اور راہباؤں کو مساجد دکھائی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں جرمن شہر من ہائم کی ایک مسجد میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے مواقع مسیحیت اور اسلام کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ ہوار کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط فہمیوں کا خاتمہ
ڈریسڈن شہر کی مساجد ثقافتی اقدار کی نمائش بھی کرتی ہیں۔ المصطفیٰ مسجد نے اس دن کے موقع پر منعقدہ تقریبات کی فہرست شائع کی ہے۔ ان میں اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن سے متعلق لیکچرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ یہاں مسجد میں قالینوں پر بیٹھ کر مختلف موضوعات پر بات چیت بھی کرتے ہیں۔