مسجد پر حملہ، جرمن سیاستدان کے دفتر پر بھیڑ کے سر پھینکے گئے
17 دسمبر 2021
جرمن شہر لائپزگ میں پیر کے روز مسجد میں توڑ پھوڑ کے واقعے کے بعد بظاہر ایک انتقامی کارروائی کی گئی، جس میں بائیں بازو کی لیفٹ پارٹی کے مقامی دفتر کو نشانہ بنایا گیا۔
اشتہار
جرمنی کے مشرقی شہر لائپزگ میں نامعلوم حملہ آوروں نے بائیں بازو کی سیاستدان جولیا ناگل کے دفتر پر سولہ دسمبر جمعرات کے روز دو بھیڑوں کے کٹے ہوئے سر پھینک دیے۔ پولیس کے مطابق تخریب کاروں نے دفتر کے سامنے آتش بازی کا مواد پھینکا اور وہاں ایک پیغام کے ساتھ پرچی بھی چھوڑ گئے۔ اس حملے میں عمارت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
یہ واقعہ لائپزگ کی ایک مسجد پر حملے کے بعد پیش آیا، جو مبینہ طور پر انتہائی بائیں بازو کے نظریات کے حامل گروپ نے کیا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں مسجد کی عمارت کی کھڑکیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ اس کے بعد مقامی افراد نے کافی غم و غصہ کا اظہار کیا تھا۔
جرمنی کی سب سے بڑی مسجد، ثقافتوں کا امتزاج
کولون کی جامع مسجد جرمنی کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کا کمپاؤنڈ شیشے اور کنکریٹ کا حسین امتزاج ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا تو اسے انضمام کی علامت قرار دیا گیا تاہم افتتاح کے وقت اسے تنازعات نے گھیر لیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Meissner
شگوفے کے مانند
اس مسجد کی کچھ دیواریں شیشے کی ہیں۔ بیرونی راستے سے سڑھیوں کی مدد سے مسجد کے کمپاؤنڈ کی تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کا ڈیزائن کھلے پن کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جہاں تمام مذاہب کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کے دو مینار ہیں، جو پچپن بچپن میٹر بلند ہیں۔ مسجد کا گنبد شیشے کا ہے، جس میں کنکریٹ کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ دور سے یہ مسجد ایک کِھلتے ہوئے شگوفے کے مانند دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/R. Hackenberg
ثقافتوں کا امتزاج
یہ مسجد کولون کے ایہرنفلڈ ڈسٹرکٹ میں واقع ہے، جہاں ماضی میں متوسط طبقہ اکثریت میں رہتا تھا۔ جب 1970 کی دہائی میں اس علاقے میں واقع فیکٹریاں بند کر دی گئی تھیں تو وہاں بے روزگاری اور غربت کی شرح بڑھ گئی تھی۔ اس علاقے میں کم کرائیوں کی وجہ سے وہاں کئی گیلریز اور تھیٹرز بنائے گئے، جس کی وجہ سے اس علاقے کو ایک نئی شناخت ملی۔ اب بھی اس علاقے کی آبادی میں 35 فیصد تارکین وطن پس منطر کے افراد مقیم ہیں۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
شراکت داری اور چندے
اس مسجد کی تعمیر کی خاطر سینکڑوں مسلم انجمنوں نے چندہ دیا تھا۔ ساتھ ہی بینکوں سے قرضے بھی لیے گئے اور جرمنی میں ترک مذہبی اتھارٹی دیتپ DITIB نے بھی خطیر عطیات فراہم کیے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ایس یو) کی مخالفت کے باوجود کولون کی شہری انتظامہ نے سن دو ہزار آٹھ میں اس مسجد کی تعمیر کی اجازت دی تھی۔
تصویر: picture alliance / dpa
ترک حکام سے اختلافات، آرکیٹیکٹ علیحدہ
آرکیٹیکٹ پاؤل بوؤم چرچ کی عمارتوں کے ڈیزائن بنانے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہی سن دو ہزار پانچ میں اس مسجد کی تعمیر کا کنٹریکٹ جیتا تھا۔ وہ اس مسجد کی عمارت کو انضمام کی علامت کے طور پر متعارف کرانا چاہتے تھے۔ تاہم جرمنی میں فعال ترک تنظیم DITIB کی قیادت سے اختلافات کے باعث وہ سن دو ہزار گیارہ میں اس منصوبے سے الگ ہو گئے تھے۔
تصویر: AP
پہلی نماز اور افتتاح
جرمن شہر کولون کی اس جامع مسجد کو سن دو ہزار سترہ کے رمضان میں نمازیوں کے لیے کھولا گیا تھا۔ تاہم اس کا باقاعدہ افتتاح ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے انتیس ستمبر سن دو ہزار اٹھارہ میں کیا۔ یہ جرمنی کی سب سے بڑی مسجد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
بارہ سو نمازیوں کی گنجائش
اس مسجد میں نماز ادا کرنے کی خاطر دو وسیع کمپاؤنڈز ہیں، ایک گراؤنڈ فلور پر اور دوسرا پہلی منزل پر۔ مجموعی طور پر بارہ سو نمازی ایک وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد کی عمارت میں ایک کتب خانہ بھی بنایا گیا ہے۔ وہاں کچھ دکانیں اور کھیلوں کی سہولیات بھی موجود ہیں تاکہ اس مسجد میں جانے والے مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط ممکن بنا سکیں۔
تصویر: Picture alliance/dpa/M. Becker
نئی سکائی لائن
جب اس مسجد کی تعمیر کا منصوبہ عوامی سطح پر پیش کیا گیا تھا تو کچھ حلقوں نے اس مسجد کی عمارت کے سائز پر تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔ بالخصوص مسجد کے میناروں کی اونچائی کے تناظر میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس مسیحی شہر کے سکائی لائن میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔ تب کولون شہر کے آرچ پشپ کارڈینیل یوآخم میزنرنے تسلیم کیا تھا کہ اس منصوبے سے ’مضطربانہ احساس‘ پیدا ہوا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/H.Kaiser
دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا احتجاج
اس مسجد کے منصوبے پر جرمنی میں دائیں بازو کی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ کٹر نظریات کے حامل کچھ سیاستدانوں نے بھی عوامی جذبات کو ہوا دیتے ہوئے جرمنی میں مسلمانوں کے انضمام کے حوالے سے ایک نئی بحث شروع کر دی تھی۔ تب جرمن لکھاری رالف گیروڈنو نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جرمنی میں مساجد کی تعمیر دراصل ملک میں ’آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی اسلامائزیشن کا اظہار‘ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
امام مسجد یا جاسوس؟
سن دو ہزار سترہ میں جرمن حکام نے ترک مذہبی ادارے DTIB کے آئمہ کے خلاف چھان بین کا عمل شروع کیا تھا۔ ان آئمہ کو ترک حکومت کی طرف سے تنخواہیں ملتی ہیں اور ان کی تربیت بھی ترکی ہی کرتا ہے۔ ساتھ ہی ان افراد کو بھی شامل تفتیش کر لیا گیا تھا، جو کولون کے اس کمپلیکس سے وابستہ تھے۔ الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ آئمہ انقرہ حکومت کے لیے جرمنی میں مقیم ترک باشندوں کی جاسوسی کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Hitij
9 تصاویر1 | 9
جرمن ریاست سیکسنی کی لیفٹ پارٹی سے وابستہ قانون ساز جولیا ناگل نے مقامی اخبار کو بتایا، ''اس واقعے سے واضح ہوگیا کہ پیر کے روز [مسجد پر ] ہونے والے حملے کا ہمیں ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
'انتقامی کارروائی‘
لائپزگ پولیس اس بارے میں تفصیلات بتانے سے قاصر ہے کہ جمعرات کے اس واقعے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ پولیس نے بتایا، ''جائے وقوعہ سے ایسے شواہد ملے ہیں جو سیاسی محرکات کی نشاندہی کرتے ہیں۔‘‘ تاہم اس بارے میں مزید تحقیقات کی جارہی ہے۔
علاوہ ازیں ناگل نے وسطی جرمنی کے صوبائی نشریاتی ادارے ایم ڈی آر کو بتایا کہ دفتر کے سامنے پٹاخے نما آتش بازی کا مواد استعمال کیا گیا اور گاڑی سے دو جانوروں کے سر پھینکنے کے ساتھ ساتھ ایک پیغام کی پرچی بھی پھینکی گئی، جس میں لفظ ’’مسجد‘‘ لکھا ہوا تھا۔
بعد ازاں انہوں نے ٹوئٹر پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا، ''ہمیں مسجد پر حملے کا ذمہ دار اس لیے ٹھہرایا جارہا ہے کیونکہ ہم نے اس معاملے پر سخت مؤقف اختیار نہیں کیا۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا، ''ہم نے واضح طور پر کہا ہے کہ عبادت کے مقامات اور مہاجرین پر حملہ غلط ہے!‘‘
اشتہار
جرمنی میں ترکش مساجد پر تنقید
جرمنی میں مساجد اور آئمین کے مبینہ طور پر ایک ملک کے ساتھ تعلقات اور اثر و رسوخ پر اکثر تنقید کی جاتی ہے، خاص طور پر دیتِب (DITIB) یا 'مذہبی امور کی ترک اسلامی یونین‘ نامی تنظیم پر۔ مذکورہ مسجد کا تعلق بھی دیتِب سے ہی ہے۔ یہ تنظیم جرمنی میں ترک مسلمانوں کی 900 کے قریب مساجد کا ایک مجموعی انتظامی ادارہ ہے لیکن اس کے جتنے بھی آئمین مساجد میں فرائض انجام دیتے ہیں، ان سب کی تربیت اور ان کے لیے مالی وسائل ترکی سے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس تنظیم کو ماضی میں ترک دائیں بازو کی قوم پرستی اور سامیت دشمنی پھیلانے کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
جرمنی میں ریاستی مدد کے ساتھ اولین امام ٹریننگ کا آغاز
03:01
جولیا ناگل نے مسجد پر حملے سے قبل مقامی اخبار سے گفتگو میں مسجد کے منتظمین پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا، ''خود کو بے وقوف بنانے کی ضرورت نہیں ہے، مسجد کے امام ترکی کے حکام ہیں، اور انہیں استنبول سے خطبے موصول ہوتے ہیں۔‘‘
دریں اثنا لائپزگ میں تارکین وطن افراد کی مشاورتی تنظیم کے شریک چیئرپرسن فرانسسکو روسو نے بائیں بازو کے چھوٹے گروپ کے اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ''ہم حیران ہیں کہ ایسا گروپ جو خود کو فاشزم، تشدد اور سڑکوں پر توڑ پھوڑ کرنے کے خلاف ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، خود ہی اب تشدد کی کارروائیاں کرتا پھرتا ے۔‘‘