جرمنی: مسلمانوں پر حملے کے ملزم انتہاپسند گروپ پر مقدمہ شروع
14 اپریل 2021
جرمن وفاقی استغاثہ کا کہنا ہے کہ مبینہ ایس گروپ نے جرمنی کے ”حکومتی اور سماجی نظام کو تباہ کرنے اور نقصان پہنچانے" کی کوشش کی تھی۔
اشتہار
بارہ جرمن شہریوں کے خلاف منگل کے روز مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی۔ ان افراد پر سماجی بد امنی کو ہوا دینے اور حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کے مقصد سے مسلمانوں، پناہ گزینوں اور سیاسی دشمنوں پر مہلک حملے کرنے کا الزام ہے۔
جنوب مغربی شہر اسٹاٹ گارٹ کی عدالت میں زیر سماعت مقدمے میں وفاقی استغاثہ کا الزام ہے کہ ان میں سے آٹھ افراد مبینہ'گروپ ایس‘ کے مشتبہ رکن ہے جنہوں نے ستمبر2019 میں ایک ”دہشت گرد تنظیم“ قائم کی تھی۔
استغاثہ کے مطابق انتہائی دائیں بازو کے اس گروپ کی قیادت وارنر ایس اور ٹونی ای نام کے ملزموں کے ہاتھوں میں تھی۔ جرمن رازداری قانون کے تحت ملزمین کے نام ظاہر نہیں جا سکتے۔
تین دیگر افراد پر ایک دہشت گرد تنظیم کا رکن ہونے کا الزام ہے جبکہ بارہویں ملزم پر گروپ کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
استغاثہ کا کہنا ہے کہ اس گروپ کے اراکین ”وفاقی جمہوریہ جرمنی میں فساد برپا کرکے ریاستی اور سماجی نظام کو تباہ کرنا چاہتے تھے تاکہ ملک میں خانہ جنگی جیسی صورت حال پیدا ہو جائے...انہوں نے اس کے لیے سیاسی رہنماوں (جن کی ابھی شناخت نہیں ہوسکی ہے)، پناہ گزینوں اور مسلمانوں پر حملے کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔"
نیو نازی گروپ کی جانب سے قتل کے واقعات کی تحقیقات
تصویر: picture-alliance/dpa
قاتل برسوں حکام کی نظروں سے اوجھل رہے
’نیشنل سوشلسٹ انڈر گراؤنڈ‘ گروپ ’این ایس یو‘ کے ارکان کئی سالوں تک جرمنی میں لوگوں کو قتل کرتے رہے ہیں۔ ان واقعات میں مبینہ طور پر اووے منڈلوس، اووے بوئنہارڈ اور بیاٹے چَیپے ملوث رہے۔ ان تینوں پر الزام ہے کہ انہوں نے آٹھ ترک نژاد، ایک یونانی نژاد اور ایک خاتون پولیس اہلکار کو غیر ملکیوں سے نفرت کی وجہ سے قتل کیا تھا۔ 2011ء تک یہ افراد حکومت کی نظروں سے اوجھل رہنے میں کامیاب رہے۔
تصویر: privat/dapd
بینک ڈکیتی کا ناکام واقعہ
دائیں بازو کے دہشت گرد گروپ کا سراغ نومبر 2011ء پر لگا تھا۔ اس روز اووے منڈلوس اور اووے بوئنہارڈ نے ایک بینک لوٹا تھا۔ یہ ان کی پہلی ناکام کارروائی تھی۔ پولیس اس گاڑی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی، جس پر یہ دونوں فرار ہوئے تھے۔ تفتیش کے مطابق ان دونوں نے گاڑی کو نذر آتش کرنے کے بعد خود کشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بیاٹے چَیپے نے خود کو حکام کے حوالے کر دیا
چیپے، اووے منڈلوس اور اووے بوئنہارڈ مشرقی جرمن شہر سویکاؤ میں رہائش پذیر تھے۔ خود کشی کے واقعے کے بعد اس گھر میں دھماکہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ثبوت مٹانے کے لیے انہوں نے گھر کو آگ لگائی تھی۔ چار روز بعد چیپے نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ مشتبہ خاتون دہشت گرد حراست میں ہے۔
تصویر: Getty Images
قتل کے واقعات سے پردہ اٹھا
سویکاؤ کے گھر کی راکھ سے حکام کو ایسا مواد حاصل ہوا، جس سے ’نیشنل سوشلسٹ انڈر گراؤنڈ‘ نامی اس دہشت گرد گروپ کے بارے میں پتہ چلا۔ یہ ایک 15 منٹ طویل ویڈیو تھی۔ اس میں 2000ء اور 2007ء کے درمیان ان تینوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کے مقامات اور نشانہ بننے والے افراد کو دیکھا جا سکتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’این ایس یو‘ کا اعترافِ جرم
شوقیہ طور پر بنائی جانے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ مشہور کارٹون کیریکٹر ’پنک پینتھر‘ غیر ملکیوں کے خلاف نفرت کا پیغام دے رہا ہے۔ اپنی گرفتاری سے قبل بیاٹے چیپے نے اس ویڈیو کی کاپیاں تقسیم بھی کی تھیں
تصویر: dapd
2011ء کا ناپسندید ترین لفظ ’ Dönermorde ‘
جرمنی میں ڈونر ایک مرغوب غذا ہے اور اس کا تعلق ترکی سے جوڑا جاتا ہے۔ 2011ء تک ذرائع ابلاغ کے کئی اداروں کی جانب سے ان واقعات کو Dönermorde یا ڈونر قتل کہا جاتا رہا۔ حالانکہ تب تک ان واقعات کا پس منظر اور مقاصد واضح نہیں تھے۔ یہ افواہیں تھیں کہ شاید مقتولین کا تعلق کسی منشیات فروش گروہ سے ہو۔ حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد Dönermorde سال کا ناپسندیدہ ترین لفظ قرار دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آہنی کیلوں سے بھرے بم کا حملہ
جون 2004ء میں کولون شہر میں ایک بم حملہ کیا گیا، جس میں آہنی کیلیں استعمال کی گئی تھیں۔ اس واقعے میں 22 افراد زخمی ہوئے تھے۔ اسی سال جون میں اس وقت کے جرمن وزیر داخلہ اوٹو شلی نے کہا تھا، ’’سلامتی کے اداروں کی اب تک کی تحقیقات کے مطابق یہ کوئی دہشت گردی نہیں بلکہ جرائم پیشہ گروہوں کی ایک کارروائی تھی حالانکہ اس واقعے کے پیچھے بھی نازی انڈر گراؤنڈ گروپ کا ہی ہاتھ تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
برلن میں مقتولین کے لیے دعائیہ تقریب
23 فروری 2012ء کو جرمن دارالحکومت برلن میں ایک خصوصی تقریب میں نازی گروپ کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی یاد تازہ کی گئی۔ اس تقریب میں ترکی سے تعلق رکھنے والے پھول فروش مرحوم انور سمسیک کی بیٹی سیمیہ سمسیک کی جذباتی تقریر نے سب کو غمزدہ کر دیا تھا۔ اس موقع پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے نیو نازی گروپ کی جانب سے کی جانے والی قتل کی وارداتوں سے متاثر ہونے والے خاندانوں سے معذرت کی تھی۔
تصویر: Bundesregierung/Kugler
متاثرہ خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار
چار نومبر 2011ء کو اس گروپ کے بے نقاب ہونے کے ٹھیک ایک سال بعد جرمنی کے متعدد شہروں میں دائیں بازو کی انتہا پسندی اور ان کا شکار ہونے والے افراد کے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ اس موقع پر منقعد ہونے والی تقریبات میں ان واقعات کی مکمل تفتیش اور حقائق کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تفتیش میں بد انتظامی
نیو نازی انڈر گراؤنڈ گروپ کے معاملے میں حکام اور ادارے بری طرح ناکام رہے۔ اس حوالے سے اہم فائلیں تلف کرنے کا واقعہ سامنے آیا۔ اطلاعات کے مطابق آئینی تحفظ کے جرمن ادارے نے نيشنل سوشلسٹ يا نازی انڈر گراؤنڈ گروپ کا راز فاش ہونے کے بعد اُن کی فائلوں کو مبینہ طور پر تلف کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ اس کے بعد اس محکمے کے سربراہ ہائنز فروم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
تصویر: Getty Images
مہمت کوباسک کی یادگار
ڈورٹمنڈ شہر کے میئر اولرش زیراؤ کے بقول ’ڈورٹمنڈ کا شمار جرمنی کے کثیر الثقافتی شہروں میں ہوتا ہے۔ یہاں دائیں بازو کی انتہا پسندی کی مخالفت بھی کھل کر کی جاتی ہے‘۔ یہ بات انہوں نے نازی گروپ کے ہاتھوں قتل ہونے والے مہمت کوباسک کی یادگار کا افتتاح کرتے ہوئے کہی۔ یہ یادگار مہمت کی اس دکان کے بہت ہی قریب قائم کی گئی ہے، جہاں چار اپریل 2006ء کو انہیں قتل کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مقدمے کی کارروائی اور صحافیوں کی مشکلات
اس مقدمے کی کارروائی کے حوالے سے ایک تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا، جب عدالتی کمرے میں غیر ملکی صحافیوں کو کوئی نشست نہیں مل سکی تھی۔ یہ کارروائی 17 اپریل کو شروع ہونا تھی تاہم عدالت نے صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے اداروں سے کہا کہ وہ ایک مرتبہ پھر سماعت کے دوران کمرے میں بیٹھنے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے درخواست دیں۔ ان معاملات کا تصفیہ ہو جانے کے بعد چھ مئی سے اس مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
12 تصاویر1 | 12
کیا جرمنی میں شدت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے؟
مبینہ 'گروپ ایس‘ کے اراکین کو گزشتہ برس فروری میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے پاس سے حملوں میں استعمال کے لیے ہتھیار، کلہاڑیاں اور تلواریں برآمد کی گئیں تھیں۔ یہ تمام لوگ جرمن شہری ہیں۔
اشتہار
استغاثہ کا کہنا تھا کہ 'گروپ ایس‘ کے افراد ایک دوسرے سے رابطے کے لیے بالخصوص فون یا میسیجنگ ایپ کا استعمال کرتے تھے لیکن ان کی براہ راست میٹنگیں بھی اکثر ہوا کرتی تھیں۔
مقدمے کی کارروائی، جو اگست تک چل سکتی ہے، ایسے وقت شروع ہوئی ہے جب جرمنی میں دائیں بازو کی انتہاپسندی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفرکا کہنا ہے کہ دائیں بازو کی انتہا پسندی جرمنی کے لیے”سب سے بڑا سکیورٹی خطرہ" ہے۔
فروری میں جرمن پولیس کی طرف سے جاری کردہ عبوری اعداد و شمار کے مطابق سن 2020 میں جرمنی میں دائیں بازو کے مشتبہ انتہا پسندوں کے ذریعہ انجام دیے جانے والے جرائم گزشتہ چار برسوں میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے۔
جنوری میں ایک جرمن نیو نازی اسٹیفان ارنسٹ کو مہاجرین کے حامی سیاست داں والٹر لیوبیک کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔
فروری 2020 میں انتہائی دائیں بازو کے ایک شدت پسند نے جرمنی کے ہناو شہر میں دو شیشہ بار پر فائرنگ کرکے نو افراد کو ہلاک اور پانچ دیگر کو زخمی کر دیا تھا۔ اس قتل عام کو جرمنی میں جنگ کے دور کے بعد سے سب سے مہلک نسلی حملہ قرار دیا گیا تھا۔
اکتوبر 2019 میں ایک نیو نازی نے یہودیوں کے اہم تہوار یوم کپور کے موقع پر ہیلے شہر میں ایک سیناگاگ پر حملہ کرکے دو لوگوں کو قتل کر دیا تھا۔