مہاجرت اور اسلام مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کی سابق شریک چیئر پرسن فراؤکے پیٹری نے کہا ہے کہ مسلمان جرمنی کو اپنا گھر بنا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں اپنے مذہبی عقائد اور سیاسی مقاصد میں تفریق واضح کرنا ہو گی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے جرمن روزنامے ویلٹ ام زونٹاگ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسلام اور مہاجرت مخالف نعرے بازی کی بدولت حالیہ جرمن وفاقی انتخابات میں تیسری سے سب سے بڑی سیاسی قوت بن کر ابھرنے والی سیاسی جماعت کی سابق شریک چیئر پرسن فراؤکے پیٹری نے کہا ہے کہ مسلمان جرمنی کو اپنا گھر بنا سکتے ہیں۔ دائیں بازو کے نظریات کی حامل اس خاتون سیاستدان نے البتہ کہا کہ اس کے لیے جرمنی میں آباد مسلمانوں کو اپنے مذہب اور سیاست کو الگ ہی رکھنا پڑے گا۔
ویلٹ ام زونٹاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بیالس سالہ پیٹری نے واضح کیا کہ اگر مسلم کمیونٹی یہ قبول کرتی ہے کہ مذہب ان کا نجی معاملہ ہے اور مذہب کی بنیاد پر کوئی سیاسی مطالبہ نہیں کیا جائے گا تو مسلمان جرمنی میں خوشی سے آباد ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی نے لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی ہے اور انہیں بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ فراؤکے پیٹری کے مطابق ’پولیٹیکل اسلام‘ جرمن معاشرے کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ مہاجرین کے بحران کے بعد یورپ اور بالخصوص جرمنی میں ہونے والے متعدد دہشت گردانہ حملوں کے نتیجے میں جرمنی میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ شدت پسندانہ سوچ کو کس طرح تبدیل کیا جائے۔ اس صورتحال میں دائیں بازو کے کٹر نظریات کی حامل سیاسی پارٹیوں نے اسلام اور مہاجرت مخالف بیانیہ استعمال کرتے ہوئے اپنے اپنے ووٹ بینک کو بڑھایا ہے۔ سن دو ہزار پندرہ کے اعدادوشمار کے مطابق جرمنی کی 82.3 ملین مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 4.5 ملین ہے۔
چوبیس ستمبر کے جرمن الیکشن میں بھی آلٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) نے اس نعرے کے ساتھ ووٹرز کو کامیاب طریقے سے اپنی طرف راغب کیا۔ یوں سن دو ہزار تیرہ میں معرض وجود میں آنے والی یہ پارٹی پہلی مرتبہ پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ تاہم اس الیکشن میں کامیابی کے فوری بعد ہی فراؤکے پیٹری نے اس پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔ اس پیشرفت کو اس پارٹی میں قیادت کی لڑائی کا نتیجہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ فراؤ کے پیٹری اپنے کٹر نظریات کے باوجود اے ایف ڈی کی موجودہ قیادت کے مقابلے میں زیادہ ’روشن خیال اور لبرل‘ قرار دی جا سکتی ہیں۔ اے ایف ڈی سے علیحدگی کے بعد پیٹری ایک نئی سیاسی پارٹی کے قیام کے بارے میں پرعزم ہیں۔ ویلٹ ام زونٹاگ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ ان کی سیاسی پارٹی میں دائیں بازو نظریات کے حامل انقلابی قسم کے افراد شامل نہیں ہوں گے اور ان کی نئی تحریک اسرائیل نواز ہو گی۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔