1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: مشتبہ شامی دہشت گرد نے خودکشی بھی بڑی چالاکی سے کی

مقبول ملک
13 اکتوبر 2016

جرمنی میں مبینہ بم حملوں کے منصوبہ ساز 22 سالہ شامی شہری جابر البکر نے خود کشی کرنے کے لیے ویڈیو کیمروں کے ذریعے مسلسل نگرانی کے نظام کو بظاہر اس طرح غچہ دیا کہ حکام کو اندازہ ہی نہ ہو سکا کہ وہ اپنی جان لینے والا تھا۔

Sicherungsverwahrung
تصویر: dapd

جرمنی کے مشرقی صوبے سیکسنی میں پیر کے روز اپنی گرفتاری کے دو دن بعد بدھ کی شام شہر لائپزگ کی ایک جیل میں خود کشی کر لینے والے اس شامی شہری اور مبینہ دہشت گرد کی موت جہاں ایک طرف جرمن سیاست دانوں کی طرف سے شدید تنقید اور حیرانی کا سبب بنی ہے، وہیں اس واقعے کے بعد صوبائی وزارت انصاف اور جیل حکام پر دباؤ بھی بہت بڑھ گیا ہے۔

گزشتہ برس بظاہر ایک شامی مہاجر کے طور پر جرمنی آنے والے جابر البکر کی موت سے متعلق نئی تفصیلات سے آج جرمنی کے مشرقی شہر ڈریسڈن میں صوبائی حکومت نے میڈیا کو آگاہ کیا۔

سیکسنی کے وزیر انصاف سباستیان گیمکوو نے جابر البکر کی طرف سے خود کشی کے ارتکاب کی سیاسی ذمے داری تو قبول کی تاہم یہ مطالبات مسترد کر دیے کہ انہیں اس وجہ سے اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔

وزیر انصاف کا مستعفی ہونے سے انکار

ایک پریس کانفرنس میں سباستیان گیمکوو نے یہ دعوے بھی رد کر دیے کہ جابر البکر کو خود کشی کرنے سے غالباﹰ روکا جا سکتا تھا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پارٹی سی ڈی یو سے تعلق رکھنے والے سیکسنی کے وزیر انصاف نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کی اب تک کی معلومات کے مطابق حقائق اس امر کے شواہد ہیں کہ جیل حکام نے وہ تمام اقدامات کیے تھے، جو وہ کر سکتے تھے۔

جب گیمکوو سے ان کے استعفے کے سیاسی مطالبات کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا، ’’فی الحال اس کی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘‘ ساتھ ہی گیمکوو نے البکر کی موت کے حوالے سے کہا، ’’ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن افسوس کہ ایسا ہو چکا ہے۔‘‘

جابر البکرتصویر: Polizei Sachsen

اسی دوران لائپزگ کی اس جیل، جہاں جابر البکر کو رکھا گیا تھا، کے سربراہ رولف یاکوب نے آج دوپہر صحافیوں کو بتایا، ’’مشتبہ دہشت گرد البکر نے اپنی ٹی شرٹ کا پھندا بنا کر گلے میں ڈالا اور اس نے اپنے سیل میں ایک آہنی جنگلے سے لٹک کر خود کشی کی۔‘‘ البکر کی لاش کا پوسٹ مارٹم آج ہی کیا جا رہا ہے۔

ویڈیو نگرانی کے باوجود خود کشی

جابر البکر کی موت کے بعد کئی ماہرین فوری طور پر یہ سوال پوچھنے لگے تھے کہ ایک جرمن جیل میں جہاں ملزم کی 24 گھنٹے ویڈیو نگرانی بھی کی جا رہی تھے، یہ مشتبہ دہشت گرد خود کشی کرنے میں آخر کامیاب کیسے ہوا؟

اس سلسلے میں جیل کے سربراہ رولف یاکوب نے میڈیا کو بتایا، ’’البکر کو جس سیل میں رکھا گیا تھا، وہاں اس کی ویڈیو نگرانی کی جا رہی تھی۔ اس نے خود کشی سے پہلے جیل اہلکاروں کو یہ شکایت بھی کی تھی کہ اس کے سیل کی لائٹ نہیں ہے۔ اس پر ڈیوٹی پر موجود اہلکاورں نے یہ سوچا کہ اس نے شاید اپنے سیل میں دلبرداشتہ ہو کر یا غصے میں کوئی توڑ پھوڑ کی ہو گی، اور اسی لیے بلب ٹوٹ گئے ہوں گے۔

’خودکشی کا خطرہ تھا ہی نہیں‘

رولف یاکوب کو بقول، ’’ہمیں یہ خدشہ نہیں تھا کہ وہ خود کشی کر سکتا تھا۔ اس لیے کہ ایک نفسیاتی ماہر نے اس کی ذہنی اور جذباتی حالت کے بارے میں کہا تھا کہ وہ کچھ کہنے میں احتیاط پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموش رہنے کو ترجیح دے رہا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ البکر ’خاموش اور پرسکون‘ بھی تھا، جس کے رویے میں متعلقہ سائیکالوجسٹ کو ’کوئی غیر معمولی بات‘ محسوس نہیں ہوئی تھی۔

اسی لیے جیل کے عملے نے، جو پہلے ہر 15 منٹ بعد اس کے سیل کے سامنے جا کر اس کے خیریت سے ہونے کو یقینی بناتا تھا، اپنے ذاتی طور پر وہاں جانے کا دورانیہ بڑھا کر آدھ گھنٹہ کر دیا تھا۔

جرمن صوبے سیکسنی کے وزیر انصاف سباستیان گیمکووتصویر: picture-alliance/dpa/A. Burgi

بدھ کی شام جب جیل کے عملے کو اچانک پتہ چلا کہ البکر نے خود کشی کر لی ہے، تو اس کے سیل کے معائنے سے یہ پتہ بھی چلا کہ اس نے خود کشی سے قبل کمرے میں لگے بجلی کے سوئچوں اور ساکٹس کے ساتھ کچھ رد و بدل بھی کیا تھا۔

اس کے بعد اس مشتبہ ملزم نے اپنی ٹی شرٹ اتار کر اس کا پھندا بنا کر گلے میں ڈالا اور ایک جنگلے سے لٹک کو اپنی جان لے لی۔ اس کی موت دم گھٹنے سے ہوئی۔ مختلف خبر ایجنسیوں کی فراہم کردہ تفصیلات کے تجزیے سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ البکر نے ویڈیو کمیروں کے ذریعے مسلسل نگرانی کے باوجود پہلے اپنے سیل میں اندھیرے کو یقینی بنایا اور پھر خود کشی اس وقت کی جب جیل اہلکار اس کے سیل کو دیکھ کر جا چکے تھے یا ان کے اگلی بار وہاں آنے میں ابھی کچھ دیر تھی۔ اس لیے کہ تب تک بار بار کی اس چیکنگ کا دورانیہ 15 منٹ سے دگنا کر کے 30 منٹ کیا جا چکا تھا۔

’نظام انصاف کا اسکینڈل‘

جرمنی میں جابر البکر کی موت کی خبر پر جہاں بہت سے عوامی حلقے ششدر رہ گئے، وہیں پر متعدد قانونی ماہرین نے اسے ملک میں ’قانونی نظام کے اسکینڈل‘ کا نام بھی دیا ہے۔ چند قانونی ماہرین نے یہ بھی پوچھا ہے کہ البکر نے اپنے سیل میں بلب توڑ دیے اور بجلی کے سوئچوں کے ساتھ رد و بدل بھی کیا، تو بھی جیل کے عملے نےکچھ نہ کیا۔

اسی دوران حکام کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ البکر کی موت کے باوجود جرمنی میں دہشت گردانہ بم حملوں کے اس منصوبے سے متعلق چھان بین جاری رہے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں