1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی مشترکہ شناخت کی تلاش میں، اینس پوہل کا تبصرہ

9 نومبر 2019

دیوار برلن کا انہدام عالمی سطح پر آزادی کی علامت بن چکا ہے۔ لیکن اس واقعے کے 30 سال بعد بھی متحد جرمنی اپنی مشترکہ شناخت کی تلاش میں ہے۔ ڈی ڈبلیو کی چیف ایڈیٹر اینس پوہل کے مطابق یہ تلاش شاید جاری ہی رہے۔

تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz

ڈی ڈبلیو کی چیف ایڈیرٹر اینس پوہل کے مطابق اگر کسی نے یہ سوچا تھا کہ دیوار برلن کے گرنے اور آہنی پردوں کے اٹھنے کے ساتھ ہی مضبوط سرحدیں ہمیشہ کے لیے غائب ہو جائیں گی، تو وہ غلطی پر تھا۔ اس سوچ کے برعکس تیس سال بعد دنیا بھر میں دوبارہ سے دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ یہ بات صرف امریکا اور میکسیکو کی سرحد کی ہی نہیں بلکہ اسرائیل اور فلسطین کے علاوہ دونوں کوریاؤں کے مابین بھی ہے۔ بلکہ یورپی یونین میں بھی سرحدی رکاوٹیں دوبارہ سے دکھائی دینے لگی ہیں۔ کچھ ایسی جگہوں پر ایک مرتبہ پھر سرحدی چوکیاں بنا دی گئی ہیں اور باڑیں  نصب کر دی گئی ہیں، جہاں سے تمام رکاوٹوں کو ہٹا دیا گیا تھا۔ اس سب کچھ سے جرمنی بچا ہوا ہے اور اسی لیے زیادہ پرکشش دکھائی دیتا ہے۔

تصویر: DW/P. Böll

متحدہ جرمنی پر بھروسہ

پوہل مزید لکھتی ہیں کہ مشرقی جرمنی کے لوگ 'کلاس نوسٹ‘ اور پیرسٹرؤکہ کے ساتھ ساتھ پولش اور ہنگیریئن باشندوں کی ہمت سے متاثر ہیں۔ کلاس نوسٹ روسی زبان میں کھلا پن اور شفافیت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ پیرسٹروئکہ 1980ء کی دہائی میں روسی کمیونسٹ پارٹی میں اصلاحات کے لیے چلائی جانے والی سیاسی تحریک تھی۔ انہی عوامل کی بناء سابقہ مشرقی جرمنی کے شہری ایک پرامن احتجاج کے ذریعے اس دیوار کو گرانے میں کامیاب ہوئے، جس نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ اس دوران ایک گولی بھی نہیں چلائی گئی تھی۔  ان ڈرامائی دنوں اور نو نومبر 1989ء کی شب کے آخری لمحات میں کوئی زخمی بھی نہیں ہوا تھا۔

تصویر: picture-alliance/AP/L. Schmidt

 اینس پوہل لکھتی ہی کہ عالمی برداری کے بھروسے کا بھی شکریہ، جس کی قیادت امریکا کر رہا تھا اور اسے میخائل گورباچوف کا تعاون بھی حاصل تھا۔ ابتدا میں فرانس اور برطانیہ  نے اس معاملے پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تھا۔ تاہم ان سب کی کوششوں سے جرمنی دیوار برلن کے انہدام کے گیارہ ماہ کے دوران ہی متحدہ ہو گیا تھا۔ یہاں پر ایک ہی  طرح کے  فلاحی نظام اور بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ ان تمام  مختلف چیزوں کو یکجا کر دیا گیا تھا، جو دو مختلف شناختوں کو ایک فعال قوم میں تبدیل کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔

امید کی خواہش

اینس پوہل اپنے تبصرے میں مزید لکھتی ہیں کہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ دیوار برلن کے انہدام کو 360 سال گزرنے کے بعد آج دنیا جرمنی کی جانب دیکھ رہی ہے۔ شاید آج کل کے عدم تحفظ اور غیر یقینی کے حالات میں، جب ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے معمول کے ڈھانچے تحلیل ہو رہے ہوں، یہ لوگ امید دلانے کی خواہش رکھتے ہوں۔

ان کے بقول جرمنی میں ابھی تک جو کچھ حاصل کیا گیا، ایسا لگتا ہے کہ کچھ مخصوص  لوگوں کو ہی اس پر فخر ہے یا وہ خوش ہیں۔ اس کے بجائے، خود جرمنی کی جدوجہد نے سیاسی سطح پر ہلچل مچا دی تھی، جس نے گزشتہ تین دہائیوں سے قائم سیاسی نظام کو کمزور کر دیا تھا۔

تصویر: DW/N. Amadou

دائیں بازو کی عوامیت پسند جماعت آلٹرنیٹو فار جرمنی ( اے ایف ڈی) نے متحدہ جرمنی کی بنیادی اقدار پر سوال اٹھائے ہیں۔ یہ جماعت مشرقی جرمن ریاستوں میں بہت مقبول ہے۔ اس کی مقبولیت نے یورپ کی بنیادی سوچ اور امیگریشن کے حوالے سے جرمنی کے نقطہ نظر پر شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔ جرمنی کی دونوں بڑی جماعتوں کے لیے عوامی حمایت کم ہو رہی ہے اور انہیں اتحادی حکومتیں قائم کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

بظاہر جرمنی کے استحکام  اور یقین سے بھرپور دن گنے جا چکے ہیں۔ جرمنی میں عوامیت پسندی کا فروغ کوئی انوکھی بات نہیں۔ مگر یہاں جو عوامل کار فرما ہیں، وہ جرمن تاریخ کے منقسم دور سے جڑے ہیں۔

بڑی مشکلات

اینس پوہل اس موقع پر  یہ سوال کرتی ہیں کہ جرمنی کیسا ملک بننا چاہتا ہے؟ ایسا ملک جہاں آباد ہر ایک یہودی کو اپنے تحفظ کا خطرہ ہو، جب وہ عبادت کے لیے اکھٹا ہو؟ ایک ایسا ملک جس میں دائیں بازو کی شدت پسندی کی واضح طور پر مخالفت کرنے والے اور تنہائی کی سیاست کے مخالف سیاستدانوں کو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو؟ یا کیا جرمنی ایسا ملک بننا چاہتا ہے، جہاں پر انسانوں کا پس منظر  اور ان کی رنگت  اہم ہو گی؟

اینس پوہل اپنے تبصرے کے آخر میں لکھتی ہیں کو یہ وہ بنیادی سوالات ہیں، جن کی وجہ سے آج دیوار برلن کے انہدام کے 30 برس مکمل ہونے کی تقریبات بہت پرسکون ماحول میں منائی نہیں جا سکتیں۔ لیکن دوسری جانب یہ وہ مسائل ہیں، جو اس ملک میں مصالحتی عمل کو فروغ دے سکتے ہیں۔

اینس پوہل / ع ا

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں