جرمنی مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں پیچھے کیوں؟
7 جولائی 2024جرمن سائنسدان مصنوعی ذہانت یا اے آئی پر تحقیق میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن جب اس تحقیق کو عملی جامہ پہنانے کی بات آتی ہے، تو جرمنی امریکہ اور چین جیسے بڑے ممالک کا مقابلہ کرنے سے قاصر نظر آتا ہے اور یہ فرق دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ بات جرمنی کے سرکاری ترقیاتی بینک 'کے ایف ڈبلیو‘ کے ایک نئے تجزیے میں بتائی گئی ہے۔
کے ایف ڈبلیو کی چیف اکانومسٹ اور بینک کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ فرٹسی کوہلر گائب کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''فی الحال ہم اے آئی اور ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں میں ریسرچ کو عملی مصنوعات میں ڈھالنے کی کوشش میں ہیں تاکہ کاروباری شعبہ اسے استعمال کر سکے۔‘‘
کے ایف ڈبلیو کے مطابق جرمنی مصنوعی ذہانت سے متعلقہ مصنوعات اور خدمات کی برآمدات کے بجائے نمایاں طور پر بڑی تعداد میں مصنوعات اور خدمات درآمد کرتا ہے۔ اس ملک نے بیرون ملک مٹھی بھر طاقت ور کمپنیوں کی اے آئی خدمات پر تیزی سے اپنا انحصار بڑھایا ہے۔ اس طرح اے آئی سے چلنے والی دنیا میں اس کی مسابقتی صلاحیت کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔
فرٹسی کوہلر گائب کہتی ہیں، ''جب اے آئی کے نفاذ کی بات آتی ہے تو دوسرے ممالک جرمنی سے کہیں آگے ہیں۔ اب ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ جرمنی مزید پیچھے نہ رہے۔‘‘
تجربہ گاہوں سے حقیقت تک
مصنوعی ذہانت پر کام کم از کم 1950 کی دہائی میں ہی شروع ہو چکا تھا۔ ایک طویل عرصے سے اسے بنیادی طور پر ''بلیو اسکائی ریسرچ‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا تھا یعنی ایسے شعبوں میں سائنسی کوششیں، جہاں ''حقیقی دنیا‘‘ میں تحقیق کا استعمال فوری طور پر نہیں ہوتا۔
لیکن گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کمپیوٹنگ پاور میں پیش رفت اور نئی مہارتوں کی ترقی اے آئی ٹیکنالوجی کو ریسرچ لیب سے نکال کر حقیقی دنیا میں لے آئے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اے آئی سے چلنے والے پروگرام، جیسے کہ 'چیٹ جی پی ٹی‘ روزمرہ کے ٹولز بن گئے ہیں، جنہیں لوگ ٹیکسٹ، تصاویر یہاں تک کہ کمپیوٹر کوڈ بنانے کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔
تاہم جرمن سائنسدانوں کی جانب سے اس میدان میں نمایاں شراکت کے باوجود اس ملک کی بیوروکریٹک رکاوٹوں اور نسبتاً کم سرمایہ کاری نے اے آئی کی صنعت کو ترقی کرنے سے روک رکھا ہے۔
جرمن ٹیلنٹ ملک چھوڑ رہا ہے
برلن یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (بی ایچ ٹی) کے پروفیسر الیگزانڈر لوئزر بھی اسی طرح کے خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''جب آج کی مارکیٹ پر حاوی مشین لرننگ پر مبنی اے آئی سولیوشنز کی بات آتی ہے، تو جرمنی تیزی سے اے آئی سروسز کے لیے ایک گاہک بنتا جا رہا ہے۔ جن کمپنیوں سے مصنوعات خریدی جا رہی ہیں، ان میں سے زیادہ تر یورپ سے باہر ہیں۔ یہ بنیادی طور پر امریکہ بلکہ تیزی سے سعودی عرب، دبئی اور چین میں ترقی کر رہی ہیں۔‘‘
پروفیسر الیگزانڈر لوئزر کے مطابق یہ رجحان اس وجہ سے بڑھا ہے کہ جرمنی اپنے اے آئی ٹیلنٹ کو ملک میں رکھنے میں ناکام ہو رہا ہے، ''یہاں کی بہت سی یونیورسٹیاں بہترین تحقیق کرتی ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو تربیت دیتی ہیں لیکن پھر ان میں سے ایک قابل ذکر تعداد بیرون ملک کام کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔‘‘
پروفیسر الیگزانڈر لوئزر کے مطابق جرمنی اور یورپی یونین میں ڈیٹا پروٹیکشن بہت زیادہ ہے اور یہ اے آئی کمپنیوں کے لیے نقصان دہ بات ہے۔ ترقیاتی بینک 'کے ایف ڈبلیو‘ نے بھی تجویز پیش کی ہے کہ کمپنیوں کی ''تربیتی ڈیٹا تک مناسب رسائی‘‘ ضروری ہے۔
نئے تجزیے کے مطابق اے آئی کی عالمی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے جرمنی کو بھی اے آئی تحقیق میں مزید سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، خاص طور پر ان شعبوں میں، جہاں اس کی پہلے سے ہی ایک مضبوط صنعت موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ طلبہ اور کارکنوں کے لیے تربیتی مواقع بڑھانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
ا ا / م م (جانوش ڈیلکر)