جرمنی ميں بے گھر افراد اور شديد سردی کی لہر
2 دسمبر 2010سر چھپانے کی کوئی بھی جگہ نہ ہونا ويسے بھی بہت بڑی مصيبت ہے، ليکن جب ايسی سخت سردی پڑ رہی ہو جيسے کہ ان دنوں جرمنی اور يورپ ميں، تو پھر اس مصيبت ميں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ پچھلے موسم سرما ميں جرمنی ميں کم از کم 18 بے گھر مرد، سڑکوں، پارکوں کی بينچوں، گڑھوں اور دوسری جگہوں پرسونے کے دوران سردی سے ٹھٹھر کر مر گئے۔ ان ميں سے کئی اس لئے بھی اس طرح موت کا شکار ہوگئے کيونکہ انہوں نے انتہائی سخت سردی کے باوجود ہنگامی مدد کے طور پر مہيا کی جانے والی رہائش گاہوں ميں جانے سے انکار کرديا تھا۔
جرمنی کے تقريباً تمام ہی شہروں ميں بے گھر اور انتہائی غريب افراد کی ديکھ بھال کے انتظامات کئے جاتے ہيں، خاص طور پر سردی کے موسم ميں۔ ہيمبرگ جيسے بڑے شہروں ميں تو اس پر اور بھی زيادہ توجہ دی جاتی ہے۔ ہيمبرگ کے علاقے آلٹونا ميں ايک عمارت ميں ان لوگوں کو کھانا مہيا کيا جاتا ہے۔ اس کا انتظام چرچ کی طرف سے کيا جاتا ہے۔ يہاں روزانہ تقريباً 120 مستحق افراد آتے ہيں۔ 50 سالہ يينس بھی اُنہی ميں شامل ہے۔ وہ تقريباً 20 سال سے بے گھر ہے۔ حال ہی ميں اُس نے رات ايک کوڑے کے کنٹينر ميں بسر کی اور وہ کوڑا لے جانے والی گاڑی سے کچلے جانے سے بال بال ہی بچا تھا۔ اس کے باوجود يينس رات گذارنے کے لئے مہيا کی جانے والی سرکاری رہائش گاہ جانے پر تيار نہيں ہے۔ اُس نے کہا:
" ميں اب تک اس قسم کے کئی ہوسٹلز ميں جاچکا ہوں۔ وہاں رات بھر دوسرے ساتھی کھڑکياں کھولتے بند کرتے رہتے ہيں، ريڈيو بجتا رہتا ہے، شراب پی جاتی ہے اور چورياں بھی ہوتی ہيں۔ اس لئے ميں تو باہر ہی رہنا پسند کرتا ہوں۔"
يينس کی طرح بہت سے دوسرے بے گھر افراد کی بھی يہی سوچ ہے۔ ايک اہلکار ماريون زاکس نے کہا کہ ہيمبرگ ميں بے گھر افراد کے لئے رات گذارنے کی جگہيں نہ صرف کم ہيں بلکہ اُن ميں سے اکثر خراب بھی ہيں۔ انہوں نے کہا: " ان سرکاری ہو سٹلز ميں ہر قسم کے لوگوں کو ايک ساتھ اکٹھا کرديا جاتا ہے۔ يہ ايک نہايت تکليف دہ بات ہے۔ چاہے کوئی شراب نوش ہو يا منشيات کا عادی يا اس قسم کی کسی بھی لت سے آزاد، وہاں سب کو ايک ساتھ رکھا جاتا ہے۔ اس لئے اس قسم کی رہائش گاہوں ميں رہنا خطرے سے بھی خالی نہيں ہے۔ "
اس کے علاوہ ايک ثقافتی مسئلہ بھی ہے۔ جرمنی ميں کُل بے گھرافراد ميں سے اکثريت کا تعلق مشرقی يورپ کے سابق کميونسٹ بلاک کے ملکوں سے ہے۔ ماضی ميں ہنگامی رہائش کے ان ہوسٹلوں ميں اُن کے اور جرمنوں کے درميان اکثر لڑائی جھگڑے بھی ہوئے ہيں۔ اس لئے بھی بہت سے بے گھر افراد اب ان ہوسٹلوں ميں رات بسر کرنے سے گريز کرتے ہيں۔ ہيمبرگ کے سماجی بہبود کے دفتر کی يوليا زائيفرٹ کو صورتحال کا بخوبی علم ہے۔ ليکن اُن کا کہنا ہے کہ اس دوران حالت ميں کچھ تبديلی بھی آئی ہے:
" صورتحال اتنی بھی خراب نہيں جتنا کہ سمجھا جاتا ہے۔ ہم تو صرف اس بارے ميں بتا ہی سکتے ہيں اور بے گھر افراد سے يہی کہہ سکتے ہيں کہ وہ خود وہاں جائيں اور ديکھيں کہ کيا حالات ہيں۔ تمام اعتراضات کو تو دور نہيں کيا جاسکتا ليکن ہميں صرف يہ اميد ہے کہ ان ہنگامی امداد کی رہائش گاہوں ميں رات گذارنا باہر سردی ميں ٹھٹھرنے سے تو بہتر ہی ہے۔"
شہر ہيمبرگ کے بہت سے سماجی کارکنوں کے بر عکس يوليا زائيفرٹ کا کہنا ہے کہ ان ہوسٹلوں ميں سونے کی جن اضافی جگہوں کا انتظام کيا گيا ہے وہ کافی ہيں:
" اس وقت شديد سردی کی حالت ميں جگہ واقعی کم ہے۔ ليکن پچھلے دنوں ميں بعض جگہيں خالی بھی پڑی رہيں۔ ہم صورتحال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہيں۔ ہم اُن لوگوں سے بات چيت کے مواقع بھی تلاش کررہے ہيں جو ہم پر تنقيد کرتے ہيں تاکہ ہم اُن سے بھی يہ پوچھ سکيں کہ وہ مسائل کے کيا حل تجويز کرتے ہيں۔"
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: کشور مصطفیٰ