جرمنی میں حکومت سازی کے لیے تین پارٹیوں کے درمیان جاری مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔ چانسلر میرکل کو حکومت کے سازی کے لیے فری ڈیموکریٹک پارٹی اور ماحول دوست گرین پارٹی کی مدد درکار ہے۔
اشتہار
چوبيس ستمبر کو ہونے والے انتخابات ميں سب سے زيادہ ووٹ چانسلر انگيلا ميرکل کی جماعت کرسچيئن ڈيموکريٹک يونين کو حاصل ہوئے تھے، تاہم یہ برتری تنہا حکومت سازی کے لیے ناکافی تھی۔ اسی تناظر میں چانسلر میرکل کی جماعت سی ڈی یو حکومت سازی کے ليے فری ڈيموکريٹک پارٹی اور ماحول دوست گرينز کے ساتھ بات چيت میں مصروف تھی، مگر یہ بات چیت اتوار اور پير کی درميانی رات ناکام ہوگئی۔
یورپ کی سب سے بڑی معیشت حالیہ کچھ ہفتوں سے سیاسی اعتبار سے ایک غیر یقینی کی صورت حال کی شکار ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جب تک حکومت سازی کے مذاکرات کامیاب نہیں ہو جاتے اور نئی حکومت قائم نہیں ہوتی، موجودہ حکومت بڑے پالیسی فیصلے لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
اس برس دنیا کے پسندیدہ ترین ممالک یہ رہے
اس سال جرمنی دنیا میں سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔ سن 2016 کے ’نیشنز برانڈز انڈکس‘ میں امریکا پہلے نمبر پر جب کہ جرمنی دوسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: picture-alliance/Y.Tylle
1۔ جرمنی
جرمنی نے اس برس امریکا سے پسندیدہ ترین ملک ہونے کی پوزیشن چھین لی ہے۔ جن چھ کیٹیگریز کو پیش نظر رکھ کر یہ انڈکس تیار کیا گیا، ان میں سے پانچ میں جرمنی کی کارکردگی نمایاں تھی۔ سیاحت کے شعبے میں جرمنی اب بھی دسویں نمبر پر ہے۔ مصر، روس، چین اور اٹلی کے عوام میں جرمنی کے پسند کیے جانے میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/R. Schlesinger
2۔ فرانس
پسندیدہ ترین ممالک کی اس فہرست میں دوسرے نمبر پر جرمنی کا ہمسایہ ملک فرانس رہا۔ نئے فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے انتخاب نے فرانس کو دوسری پوزیشن پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ثقافت کے حوالے سے فرانس دنیا بھر میں پہلے جب کہ سیاحت میں دوسرے نمبر پر ہے۔
تصویر: Fotolia/ThorstenSchmitt
3۔ برطانیہ
بریگزٹ کے عوامی فیصلے کے بعد برطانیہ پسندیدہ ترین ممالک کی اس عالمی درجہ بندی میں پچھے چلا گیا تھا تاہم اس برس کے جائزے کے مطابق دنیا بھر میں بریگزٹ کی حقیقت کو تسلیم کیا جا چکا ہے۔ برآمدات، سیاحت، ثقافت اور مہاجرت کے بارے میں پالیسیوں کے حوالے سے برطانیہ پہلے پانچ ممالک میں شامل ہے اور مجموعی طور پر اس فہرست میں تیسرے نمبر پر۔
تصویر: picture-alliance/Prisma/C. Bowman
4۔ کینیڈا (مشترکہ طور پر چوتھی پوزیشن)
حکومت، عوام، مہاجرت سے متعلق پالیسیوں اور سرمایہ کاری میں بہتر کارکردگی کے باعث اس برس کے ’نیشنز برانڈز انڈکس‘ میں کینیڈا چوتھی پوزیشن پر رہا۔ مجموعی طور پر کینیڈا کا اسکور گزشتہ برس سے زیادہ مختلف نہیں تھا تاہم امریکا کی رینکنگ کم ہونے کا بھی کینیڈا کو فائدہ پہنچا۔
تصویر: picture alliance/All Canada Photos
4۔ جاپان (مشترکہ طور پر چوتھی پوزیشن)
سن 2017 کے پسندیدہ ترین ممالک کے اس انڈکس میں جاپان کی کارکردگی گزشتہ برسوں کی نسبت بہت بہتر رہی اور وہ مشترکہ طور پر کینیڈا کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہا۔ جاپان کی برآمدات کے شعبے میں کارکردگی اس برس بھی اچھی رہی لیکن اس کے علاوہ جاپان کی حکومت، ثقافت اور مہاجرین سے متعلق پالیسیوں کو بھی عالمی طور پر سراہا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Nogi
6۔ امریکا
جہاں جاپان اس فہرست میں تیزی سے اوپر آیا، وہیں امریکا کی کارکردگی مایوس کن رہی اور وہ اپنی مسلسل پہلی پوزیشن سے نیچے آتے ہوئے اس برس عالمی سطح پر دنیا کا چھٹا پسندیدہ ترین ملک قرار پایا۔ اس مایوس کن کارکردگی کا ذمہ دار ’ٹرمپ ایفیکٹ‘ کو قرار دیا جا رہا ہے اور حکومت کے شعبے میں امریکا دنیا میں تئیسویں نمبر پر آ چکا ہے۔ برآمدات کے حوالے سے تاہم امریکا کی دوسری پوزیشن برقرار رہی۔
تصویر: Skidmore, Owings & Merrill
پہلے دس ممالک
ان چھ ممالک کے علاوہ اٹلی، سوئٹزرلینڈ، آسٹریلیا اور سویڈن پسندیدہ ترین ممالک کی اس فہرست میں بالترتیب ساتویں، آٹھویں، نویں اور دسویں پوزیشن پر رہے۔
7 تصاویر1 | 7
انتخابات سے قبل چانسلر میرکل نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ فری ڈیموکریٹک پارٹی FDP کے ساتھ مل کر حکومت قائم کرنا پسند کریں گے، تاہم حالیہ انتخابات میں چانسلر میرکل کی جماعت سی ڈی یو، باویریا میں اس کی سسٹر پارٹی سی ایس یو اور فری ڈیموکریٹک پارٹی مل بھی جائیں، تو وہ حکومت قائم نہیں کر سکتیں۔ اسی تناظر میں میرکل کو گرین پارٹی کی مدد بھی درکار ہے۔ تاہم مہاجرین اور ماحول سمیت بہت سے موضوعات پر ان جماعتوں کے درمیان پائے جانے والے بڑے اختلافات ایسے کسی اتحاد کے قيام کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
قریب ایک ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد گزشتہ شب اس سلسلے میں جاری ایک اجلاس سے واک آؤٹ کرتے ہوئے فری ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ کرسٹیان لِنڈنر نے کہا کہ حکومت سازی کے لیے درکار ’اعتماد کی بنیاد‘ ہی موجود نہیں ہے۔
جرمن باشندوں کے خزاں اور موسم سرما کے درمیان مشاغل
نومبر کی آمد کے ساتھ ہی جرمنی میں موسم سرما بھی اپنی روایتی خوبصورتی کے ساتھ جلوہ گر ہو جاتا ہے۔ موسم میں تبدیلی کے ساتھ ہی جرمن باشندوں کے مشاغل بھی بدل جاتے ہیں۔ ان سر گرمیوں پر ایک نظر ان تصاویر کے ذریعے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P.Pleul
کارنیوال کا افتتاح
دریائے رائن کے کنارے آباد کوبلنز، مائنز، بون، کولون اور ڈسلڈورف جیسے شہروں میں کارنیوال کا اہتمام قابل دید ہوتا ہے۔ گیارہ نومبر سے شروع ہونے والے کارنیوال کی کئی روزہ تقریبات کے انجام کے قریب ایک’پیر‘ سب سے اہم دن ہوتا ہے۔ اسے ’روز منڈے‘ یعنی ’گلابی پیر‘ کہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
سنگھاڑوں کا کھیل
کانٹے دار خول میں چھپے ہوئے ملائم بھورے رنگ کے سنگھاڑوں کو جرمن بچے موسم خزاں میں جمع کرتے ہیں۔ ان سنگھاڑوں سے گلے کے نیکلس یا پھر جانوروں جیسی اشکال بنائی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hollemann
مشرومز (کھمبی) چننے کا موسم
جرمنی میں موسم سرما کا سب سے مزے دار حصہ شاید یہی ہے۔ اگر آپ کی قسمت اچھی ہے تو آپ کو اس موسم میں مشروم (کھمبی) کی کئی اقسام مل جائیں گی۔ جرمن افراد عموماﹰ مشرومز کی متنوع اقسام کی شناخت میں ماہر ہوتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
زرد پتوں پر سیر کا لطف
خزاں کے موسم میں اتوار کی دوپہر کو اکثر جرمن شہری جنگل میں رنگا رنگ پتوں کی خوبصورتی کو سراہنے نکلتے ہیں۔ شہر میں درختوں سے جھڑنے والے پتوں کو سڑک کے ایک طرف لگا دیا جاتا ہے تاکہ کوڑے کی گاڑیاں انہیں اٹھا لے جائیں۔ بچوں کے لیے پتوں کے اس ڈھیر پر کھیلنا کم دلچسپی کا باعث نہیں ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
سپا جانا بھی ضروری ہے
جرمن افراد سپا کلچر کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ یوں تو جرمنی میں تھرمل سوئمنگ پولز سارا سال ہی کھلے رہتے ہیں لیکن جیسے جیسے باہر درجہ حرارت گرتا ہے، جرمنی کے رہنے والے سپا میں درجہء حرارت کے اس فرق کو زیادہ انجوائے کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P.Pleul
گرم کپڑے بکسوں سے باہر
بہت سے جرمن والدین اپنے بچوں کو سر سے پاؤں تک آرگینگ اون سے بنے کپڑے ہی پہنانا پسند کرتے ہیں۔ بعض جرمن افراد خود اپنے لیے بھی سردیوں میں ایسے ہی اونی کپڑوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ ایسی اشیا مہنگی ہوتی ہیں لیکن قدرتی، ماحولیاتی اور پائیدار ہونے کے سبب ان پر سرمایہ کاری کو بہتر سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: imago/CHROMORANGE
ہیٹر بھی کھول دیے جاتے ہیں
جوں ہی سردی زیادہ ہونے لگتی ہے، جرمن افراد اپنے گھروں کو گرم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگرچہ اب جرمنی بھر میں زیادہ تر گھروں کو گرم رکھنے کے لیے گیس کا استعمال کیا جاتا ہے، تاہم اب بھی کچھ ایسے پرانے مکانات موجود ہیں جنہیں کوئلے یا لکڑی سے گرم رکھا جاتا ہے۔
تصویر: imago/Waldmüller
گھر گرم رکھیں لیکن کھڑکیاں کھول دیں
جرمن گھروں میں ہیٹر آن کرنے کے بعد یہ مشق عام ہے کہ سخت سردی کے باوجود بھی روزانہ چند منٹوں کے لیے گھر کی کھڑکیاں کھولنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اسے نمی والےگھروں میں پھپھوندی سے بچاؤ کا طریقہ سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: DW/E. Grenier
ایڈونٹ کیلنڈر پر گنتی
اگرچہ یہ خاص کیلنڈر کرسمس سے پہلے آخری چوبیس دنوں کو شمار کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تاہم جرمنی کی سپر مارکیٹوں میں اکتوبر ہی سے ان کی بھرمار نظر آتی ہے۔
تصویر: Colourbox
9 تصاویر1 | 9
ان کا کہنا تھا، ’’بری حکم رانی سے بہتر ہے کہ حکم رانی کی ہی نہ جائے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ جرمنی کو جدید تر بنانے کے لیے حکومت سازی کے مذاکرات میں شامل جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اسی تناظر میں کہا ہے، ’’بہ طور چانسلر، میں ہر ممکن طریقے سے اس ملک کو اس مشکل صورت حال سے باہر لاؤں گی۔‘‘
تاہم خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اب ايسی صورت ميں چانسلر انگيلا ميرکل کی صورت حال بھی غير واضح ہے۔ اب يہ بھی ممکن ہے کہ جرمنی ميں دوبارہ اليکشن کرائے جائيں اور يہ بھی کہ صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر ميرکل کو چانسلر منتخت کر ديں اور انہيں بعد ازاں مختلف امور کے ليے کوليشن پارٹنرز ڈھونڈنے پڑيں۔