اسلامک اسٹیٹ کا ساتھ دینے والے کئی افراد جرمنی واپس آ چکے ہیں، خاص طور پر ریاست رائن لینڈ ویسٹ فیلیا میں۔ آئینی تحفظ کا ریاستی ادارہ خواتین اور بچوں کے شدت پسندی کی جانب راغب ہونے کی وجہ سے پریشان ہے۔
اشتہار
ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے آئینی تحفظ کے ادارے کے سربراہ برکہارڈ فرائر نے بتایا کہ مشرق وسطیٰ ميں سرگرم دہشت گرد تنظيم اسلامک اسٹيٹ يا داعش کا ساتھ دے کر جرمنی واپس آنے والے قومی سلامتی کے ليے ایک بڑا خطرہ ہیں کیونکہ ان میں سے کئی جنگی تجربہ حاصل کر چکے ہیں۔ فرائر نے کہا، ’’انہیں جرمنی سے باہر دہشت گردانہ نیٹ ورک بنانا اور اسے چلانا آتا ہے۔‘‘
فرائر مزید بتاتے ہیں کہ جرمنی واپس آنے والوں میں سے کچھ افراد صدمے کا شکار ہیں تو کچھ کے خواب اور مستقبل کے ارادے چکنا چور ہو چکے ہیں تاہم اس کے باوجود زیادہ تر کٹر سلفی نظریات پر عمل پیرا ہیں اور اس نیٹ ورک میں فعال بھی ہیں۔
آئینی تحفظ کے وفاقی جرمن ادارے کے اندازوں کے مطابق جرمنی سے تقریباً ایک ہزار افراد اسلامک اسٹیٹ کے زیر اثر علاقوں میں گئے تھے۔ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے ماہر نفسیات احمد منصور کی رائے میں جرمنی سے جانے والے شہریوں کی اصل تعداد اس سے دگنی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ داعش کے ليے لڑتے وقت ڈیڑھ سو کے قریب جرمن شہری ہلاک بھی ہوئے اور تقریباً تین سو واپس جرمنی پہنچ چکے ہیں۔
داعش کے خلاف برسر پیکار ایران کی کُرد حسینائیں
ایران کی تقریباﹰ دو سو کرد خواتین عراق کے شمال میں داعش کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ یہ کردوں کی فورس پیش مرگہ میں شامل ہیں اور انہیں امریکی افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق جب بھی داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے ایران کی ان کرد خواتین پر مارٹر گولے برسائے جاتے ہیں تو سب سے پہلے یہ ان کا جواب لاؤڈ اسپیکروں پر گیت گا کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد مشین گنوں کا رخ داعش کے ٹھکانوں کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اکیس سالہ مانی نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ گیت اس وجہ سے گاتی ہیں تاکہ داعش کے عسکریت پسندوں کو مزید غصہ آئے، ’’اس کے علاوہ ہم ان کو بتانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ان کا خوف اور ڈر نہیں ہے۔‘‘ تقریباﹰ دو سو ایرانی کرد خواتین ایران چھوڑ کر عراق میں جنگ کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
یہ کرد خواتین چھ سو جنگ جووں پر مشتمل ایک یونٹ کا حصہ ہیں۔ اس یونٹ کا کردستان فریڈم پارٹی سے اتحاد ہے۔ کرد اسے ’پی اے کے‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
چھ سو جنگ جووں پر مشتمل یہ یونٹ اب عراقی اور امریکی فورسز کے زیر کنٹرول اس یونٹ کے ساتھ ہے، جو موصل میں داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔ کرد جنگ جووں کا اپنے ایک ’آزاد کردستان‘ کے قیام کا بھی منصوبہ ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
مستقبل میں کرد جنگ جو شام، عراق، ترکی اور ایران کے چند حصوں پر مشتمل اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں لیکن ان تمام ممالک کی طرف سے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی کرد باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک کرد خاتون جنگ جو کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے لڑ رہی ہیں۔ وہ سرزمین چاہیے ایران کے قبضے میں ہو یا عراق کے وہ اپنی سر زمین کے لیے ایسے ہی کریں گی۔ ان کے سامنے چاہے داعش ہو یا کوئی دوسری طاقت اوہ اپنی ’مقبوضہ سرزمین‘ کی آزادی کے لیے لڑیں گی۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
اس وقت یہ خواتین مرد کردوں کے ہم راہ عراق کے شمال میں واقع فضلیہ نامی ایک دیہات میں لڑ رہی ہیں۔ ایک بتیس سالہ جنگ جو ایوین اویسی کا کہنا تھا، ’’یہ حقیقت ہے کہ داعش خطرناک ہے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ایک جنگ جو کا کہنا تھا کہ اس نے پیش مرگہ میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا تھا، جب ہر طرف یہ خبریں آ رہی تھیں کہ داعش کے فائٹرز خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کر رہے ہیں، ’’میں نے فیصلہ کیا کہ ان کو میں بھی جواب دوں گی۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان خواتین کی شمالی عراق میں موجودگی متنازعہ بن چکی ہے۔ ایران نے کردستان کی علاقائی حکومت پر ان خواتین کو بے دخل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں کرد جنگ جووں کی ایرانی دستوں سے کم از کم چھ مسلح جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
ان کے مرد کمانڈر حاجر باہمانی کا کے مطابق ان خواتین کے ساتھ مردوں کے برابر سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں ان خواتین پر فخر ہے۔ ان خواتین کو چھ ہفتوں پر مشتمل سنائپر ٹریننگ بھی فراہم کی گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Jadallah
10 تصاویر1 | 10
حکام کے مطابق مستقبل میں آئی ایس کے مزید ارکان واپس جرمنی آئیں گے۔ جرمنی میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں سلفی مسلمان ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
جرمنی ميں سلفی مسلمانوں کی تعداد تين ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان تین ہزار میں سے تقریباً آٹھ سو کو خطرہ یا ’تشدد پر آمادہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ان میں سے تقریباً ایک چوتھائی یا پچیس فیصد خواتین ہیں۔ خواتین سلفی نظریات کی تشہیر میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں کیونکہ ان کے ذریعے سوچ بچوں تک پہنچ رہی ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ واپس آنے والے خواتین اور بچوں کے ساتھ جرمن معاشرے کوکیسا سلوک روا رکھنا چاہیے؟ برکہارڈ فرائر نے کہا کہ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ 2018ء کے آغاز سے واپس آنے میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ زیادہ تر مرد جیلوں میں قید ہیں جبکہ کچھ اسلامک اسٹیٹ کے زیر اثر علاقوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
ان کے بقول ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ خواتین اپنے بچوں کی تربیت ان نظریات کی بنیاد پر کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر انہیں بچوں کے گیت نہیں سنائے جاتے۔ بچوں کو کنڈر گارٹن نہیں بھیجا جاتا اور یہ لوگ الگ تھلگ رہ کر اپنی دنیا میں ہی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس صورتحال میں سلفیوں کی ایک نئی نسل تیار ہو رہی ہے۔
لڑائی کے میدان میں اسلامک اسٹیٹ کو تقریباً پسپائی حاصل ہو چکی ہے۔ اپنے عروج کے دور میں سلفی نظریات رکھنے والی یہ تنظیم عراق اور شام کے اتنے بڑے علاقے پر قابض تھی، جس کا رقبہ برطانیہ سے بھی زیادہ بنتا تھا۔ ابو بکر البغدادی کی خود ساختہ خلافت کا ساتھ دینے کے لیے دنیا بھر سے لوگوں نے ان علاقوں کا رخ کیا تھا۔
ڈوئچے ویلے نے جب برکہارڈ فرائر سے جب یہ پوچھا کہ اگر کوئی شخص اس صورتحال سے باہر آنا چاہے تو یہ مرحلہ کس قدر مشکل ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے مختلف پروگرامز ہیں۔ یہ دو مختلف قسم کے ہیں۔ ان میں سے ایک میں کٹر نظریات کے چنگل سے آزاد کرانا مقصود ہوتا ہے جبکہ دوسرے میں متعلقہ شخص کو دوبارہ سے معاشرے میں ضم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح شدت پسندی سے دور ہٹنے والے کو لازمی طور پر جمہوری معاشرے میں رہنے کے قابل بنایا جاتا ہے۔
جرمنی کا داعش کے خلاف فوجی کارروائی میں شرکت کا فیصلہ