1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی ميں رمضان اور مسلمان: نفس پر فتح

20 جولائی 2012

اگر جرمنی ميں ماہ رمضان موسم گرما ميں آئے، جيسے کہ اس سال، تو دن بہت لمبے ہونے کی وجہ سے يہ خاص طور پر ملازمت پيشہ مسلمانوں کے ليے کافی مشکل مہينہ ہوتا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

جرمنی ميں اس وقت انتہائے سحر سے لے کر افطار تک 18  گھنٹوں کا عرصہ ہوتا ہے۔ اس عرصے کے دوران رمضان ميں مسلمانوں کو ايک ماہ تک کھانے پينے سے گريز کرنا ہو گا۔ يہ جرمنی ميں رمضان کی حقيقت ہے۔

رمضان دنيا بھر کے مسلمانوں کے ليے سال کا سب سے خوبصورت مہينہ ہوتا ہے، مہينوں کا سلطان۔ ليکن اس کے ساتھ ہی ماہ رمضان اپنے ساتھ بہت سے چيلنج بھی لاتا ہے۔ اُم عزيز 15 سال سے جرمنی ميں رہ رہی ہيں۔ وہ دو بچوں کی ماں ہيں اور ریستوراں ميں کام کرتی ہيں۔ انہوں نے کہا: ’صبح سويرے کافی نہ پينا ميرے ليے بہت مشکل ہوتا ہے۔‘ جرمنی ميں آنے والے بہت سے مسلمان ريستورانوں اور ہوٹلوں ميں کام کرتے ہيں اور يہ ايسی جگہيں ہيں جہاں روزہ رکھنا خاص طور پر مشکل ہوتا ہے۔ اگر گرمی زيادہ ہوتی ہے تو پياس پريشان کرتی ہے۔ اس کے علاوہ تھکن اور مسلسل بڑھتی ہوئی کمزوری بھی ايک مسئلہ ہوتی ہے۔ تمباکو نوشی کرنے والوں کو بھی اچھی خاصی برداشت سے کام لينا ہوتا ہے۔

ليکن روزہ رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس کے ساتھ ہی دوسرے تمام کام بھی انجام دينا ہی پڑتے ہيں، جن ميں گھريلو کام کاج اور بچوں کی ديکھ بھال بھی شامل ہے۔ ملازمت کرنے والے مسلمان رمضان ميں پورے چار ہفتوں کی چھٹی نہيں لے سکتے۔ 

جرمنی ميں رمضانتصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb

ام عزيز جتنا زيادہ عرصہ جرمنی ميں گ‍زار رہی ہيں اور ايک مغربی اثرات والے ملک کی عادات زندگی کو اپنی زندگی ميں سمو رہی ہيں، اُتنا ہی زيادہ رمضان کے روزے اُن کے ليے مشکل ہوتے جا رہے ہيں۔ انہوں نے کہا: ’اس سال روزے بہت مشکل ہوں گے۔ ميں زيادہ تر سہ پہر کو ريستوراں ميں آتی ہوں۔ پھر مجھے بہت سے کھانے پکانے ہوتے ہيں۔ گاہکوں ميں بہت سے عرب ہيں، جو افطار کے ليے آتے ہيں۔ يہ شہر کولون کے عرب ريستوراں کا کاروباری گہما گہمی کے عروج کا مہينہ ہوتا ہے۔‘ پچھلے برسوں کے دوران ام عزيز پر بعض دن بڑے سخت گزرے اور وہ روزہ نہ رکھ سکيں۔ ليکن اس سال وہ پورے روزے رکھنا چاہتی ہيں۔ انہوں نے کہا: ’جب رمضان کے اختتام پر سب عيد مناتے ہيں تو ميں روزے چھوڑنے کی وجہ سے بہت برا محسوس کرتی ہوں۔ آخر کار روزہ رکھنا اپنے نفس پر فتح بھی تو ہے۔ مجھے ايسا محسوس ہوتا ہے جيسے ميں اپنا فرض ادا کرنے ميں ناکام ہو گئی ہوں۔‘  

جرمن شہر ڈيوز برگ کی ايک مسجدتصویر: AP

جرمنی جيسے ملک ميں مسلمانوں کے ليے ايک اور مشکل يہ بھی ہے کہ انہيں دوسرے روزہ داروں کا ساتھ مشکل ہی سے مل پاتا ہے۔ مسلم ممالک ميں تو اوقات کار تبديل ہونے کے علاوہ تقريباً سب ہی روزہ بھی رکھتے ہيں۔ سب کے ساتھ مل کر روزہ رکھنا آسان ہوتا ہے۔ اس ليے جرمنی ميں مقيم مسلمانوں ميں سے جو بھی رمضان ميں کسی مسلمان ملک جا سکتے ہيں وہ ضرور ايسا کرتے ہيں۔

ليکن رمضان اسلام کے پانچ ستونوں يا فرائض ميں سے ايک ہے اور کوئی بھی مسلمان سخت ترين حالات کے باوجود کسی شرعی عذر کے بغير رمضان کے روزے چھوڑنے کا تصور نہيں کر سکتا۔ جرمنی میں مقیم ایک ترک نژاد مسلمان علی شکری نے کہا: ’ميرے ليے روزہ نہ رکھنے کا کوئی سوال ہی پيدا نہيں ہوتا۔‘

روزہ ہر مسلمان پر بلوغت کی عمر کے ساتھ فرض ہو جاتا ہے جسے علماء 13، 14 یا 15 سال قرار ديتے ہيں۔ ام عزيز نے کہا: ’ميرا بیٹا اب 15 برس کا ہے۔ اس نے 10 سال کی عمر ميں روزے رکھنا شروع کيے تھے اور پچھلے سال جب وہ 14 برس کا تھا، تو اس نے پورے روزے رکھے تھے۔‘

U. Hummel, sas / K. Krämer, mm

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں