جرمنی ميں سياسی پناہ کے ’نئے اور سخت تر‘ قوانين منظور
عاصم سلیم
19 مئی 2017
جرمن پارليمان نے سياسی پناہ کے نئے سخت تر قوانين کی منظوری دے دی ہے۔ نئے قوانين ميں ملک بدری کے عمل، مہاجرين کی ذاتی معلومات تک رسائی اور ان کی نگرانی کے حوالے سے سخت موقف اختيار کيا گيا ہے۔
اشتہار
نئے جرمن قوانين کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو يہ اختيار حاصل ہو گا کہ وہ ان تارکين وطن کو زيادہ تيزی کے ساتھ ملک بدر کر سکيں جن کی سياسی پناہ کی درخواستيں مسترد ہو چکی ہيں۔ جرمن پارليمان نے سياسی پناہ کے حوالے سے نئے سخت تر قوانين کی منظوری جمعرات اٹھارہ مئی کو دی۔ ان قوانين کی بدولت ملکی سلامتی کے ليے خطرہ تصور کيے جانے والے مہاجرين کو فوری طور پر ملک بدر کيا جا سکے گا يا پھر ان کے ٹخنے پر اليکٹرانک بینڈ لگا کر ان کی چوبيس گھنٹے نگرانی ممکن ہو سکے گی۔
يہ امر اہم ہے کہ نئے قوانين کے مطابق کسی مہاجر کی سياسی پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد اس کی ملک بدری کے احکامات پر عمل درآمد کے ليے اب نہ تو تين ماہ کا انتظار ضروری ہے اور نہ ہے حکام کو متعلقہ مہاجر کے آبائی ملک سے دستاويزات کی آمد کا انتظار کرنا ہو گا۔ گزشتہ برس جرمن دارالحکومت برلن کی ايک کرسمس مارکيٹ پر حملے کے تناظر ميں يہ انتہائی اہم قانون سازی ہے۔ تيونس سے تعلق رکھنے والے حملہ آور انيس آمری کے ملک بدری کے احکامات پر عملدرآمد اس ليے ممکن نہيں ہو سکا تھا کيونکہ اس کا آبائی ملک اس کے شناختی دستاويزات مہيا نہيں کر سکا تھا۔
قبل ازيں جرمن حکام کو يہ اختيار حاصل تھا کہ کسی مہاجر کو سلامتی کے ليے خطرہ تصور کيے جانے پر اسے چار ايام تک کے ليے حراست ميں رکھا جا سکتا ہے۔ نئے قوانين ميں اس مدت ميں بھی توسيع کر دی گئی ہے اور اب حکام ايسے کسی شک کی بنياد پر متعلقہ تارک وطن کو دس دن کے لیے حراست ميں رکھ سکتے ہيں۔ منظور ہونے والے ايک اور قانون کے مطابق جرمنی کے وفاقی دفتر برائے ہجرت و مہاجرين کے اہلکاروں کو يہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی درخواست دہندہ مہاجر کی شناخت کے حقيقی تعين کے ليے اس کا ذاتی موبائل فون يا ديگر چيزوں کا معائنہ کر سکيں۔
پاکستانی طلبا اور اعلیٰ تعليم يافتہ افراد کے ليے جرمنی ميں مواقع
02:34
علاوہ ازيں جو مہاجرين اپنی شناخت کے حوالے سے غلط بيانی کر کے جرمنی پہنچے ہوں، ان کی نقل و حرکت کو قانونی طور پر محدود کيا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جن مہاجرين کو قانونی طور پر ملک ميں قيام کی اجازت نہيں، ان کی بھی آزاد نقل و حرکت محدود يا ختم کی جا سکتی ہے۔
جرمنی کی سولہ رياستيں اس سال فروری ہی ميں ان نئے قوانين کی منظوری دے چکی ہيں۔ انسانی حقوق سے منسلک گروپوں اور امدادی اداروں نے ان نئے قوانين کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ نئے قوانين پناہ کی تلاش ميں آنے والے مہاجرين کے بنيادوں حقوق کے منافی ہيں۔ جرمن وزير داخلہ تھوماس ڈے ميزيئر نے تنقيد کے باوجود نئے قوانين کا دفاع کيا۔ ان کے بقول اس معاملے ميں جرمن حکام کا موقف بالکل واضح ہے، ان کی مدد کی جائے، جو مدد کے مستحق ہيں ليکن جو مدد اور پناہ کے مستحق نہيں، انہيں ملک بدر کيا جائے۔
کون سا سمندر کب کتنے مہاجرین نگل گیا
پناہ کی تلاش ميں سب کچھ داؤ پر لگا دينے والے اکثر منزل پر پہنچنے سے قبل ہی اس دنيا کو خيرباد کہہ ديتے ہيں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران کتنے مہاجرين ہلاک ہوئے، کہاں ہلاک ہوئے اور ان کا تعلق کہاں سے تھا، جانيے اس گيلری ميں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بحيرہ روم ’مہاجرين کا قبرستان‘
سال رواں ميں دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہو جانے والے مہاجرين کی تعداد 1,319 ہے۔ سب سے زيادہ ہلاکتيں بحيرہ روم ميں ہوئيں، جہاں وسط اپريل تک 798 افراد يا تو ہلاک ہو چکے ہيں يا تاحال لاپتہ ہيں۔ پناہ کی تلاش ميں افريقہ يا ديگر خطوں سے براستہ بحيرہ روم يورپ پہنچنے کی کوششوں کے دوران جنوری ميں 257، فروری ميں 231، مارچ ميں 304 اور اپريل ميں اب تک چھ افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
سينکڑوں نامعلوم شناخت والے لاپتہ يا ہلاک
سال رواں ميں جنوری سے لے کر اپريل تک دنيا بھر ميں 496 ايسے افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں جن کی شناخت واضح نہيں۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے 191 افراد کا تعلق ايک سے زيادہ ملک يا خطے سے تھا۔ زیریں صحارا افريقہ کے 149، قرن افريقی خطے کے ملکوں کے 241، لاطينی امريکی خطے کے 172، جنوب مشرقی ايشيا کے 44، مشرق وسطیٰ و جنوبی ايشيا کے پچيس افراد اس سال گمشدہ يا ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Morenatti
سن 2016 ميں تقریبا آٹھ ہزار مہاجرين ہلاک يا لاپتہ
سن 2016 ميں عالمی سطح پر لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی مجموعی تعداد 7,872 رہی۔ پچھلے سال بھی سب سے زيادہ ہلاکتيں يا گمشدگياں بحيرہ روم ميں ہوئيں اور متاثرين کی مجموعی تعداد 5,098 رہی۔ سن 2016 کے دوران شمالی افريقہ کے سمندروں ميں 1,380 افراد، امريکا اور ميکسيکو کی سرحد پر 402 افراد، جنوب مشرقی ايشيا ميں 181 جب کہ يورپ ميں 61 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔
پچھلے سال بھی افريقی خطہ سب سے زيادہ متاثر
پچھلے سال افريقہ کے 2,815 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے ايک سے زائد ملک کی شہريت کے حامل مہاجرين کی تعداد 3,183 رہی۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ايشيائی خطے کے 544، جنوب مشرقی ايشيا کے 181 جبکہ لاطينی امريکا و کيريبيئن کے 675 مہاجرين سن 2016 ميں لقمہ اجل بنے۔ پچھلے سال بغير شہريت والے 474 مہاجرين بھی لاپتہ يا ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/G. Moutafis
جنوب مشرقی ايشيا بھی متاثر
پناہ کے سفر ميں اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل ہی زندگی کو خيرباد کہہ دينے والوں کی تعداد سن 2015 ميں 6,117 رہی۔ اُس سال بھی سب سے زيادہ 3,784 ہلاکتيں بحيرہ روم ہی ميں ہوئيں۔ 2015ء ميں بحيرہ روم کے بعد سب سے زيادہ تعداد ميں ہلاکتيں جنوب مشرقی ايشيا ميں رونما ہوئيں، جہاں 789 پناہ گزينوں کے بہتر زندگی کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ يہ وہی سال ہے جب ميانمار ميں روہنگيا مسلمانوں کا معاملہ بھی اپنے عروج پر تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images
روہنگيا بھی پناہ کی دوڑ ميں گُم ہو گئے
سن 2015 کے دوران بحيرہ روم سے متصل ممالک کے 3784 مہاجرين، جنوب مشرقی ايشيا کے 789 جبکہ شمالی افريقہ کے 672 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہو گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر نے سن کے دوران پناہ کے سفر کے دوران ہلاک ہونے والے روہنگيا مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ ساڑھے تين سو بتائی تھی۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
شناخت واضح نہيں يا وجہ کوئی اور؟
دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی سن 2014 ميں مجموعی تعداد 5,267 تھی۔ ہلاکتوں کے لحاظ سے اس سال بھی بحيرہ روم اور جنوب مشرقی ايشيائی خطے سر فہرست رہے، جہاں 3,279 اور 824 ہلاکتيں ہوئيں۔ اس سال ہلاک ہونے والے قريب ايک ہزار افراد کی شناخت واضح نہيں تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/S.Palacios
سن 2000 سے اب تک چھياليس ہزار ہلاک
’مسنگ مائگرينٹس پراجيکٹ‘ بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت کا ايک ذيلی منصوبہ ہے، جس ميں پناہ کے سفر کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہو جانے والوں کے اعداد و شمار پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس ادارے کے مطابق سن 2000 سے لے کر اب تک تقريباً چھياليس ہزار افراد سياسی پناہ کے تعاقب ميں اپنی جانيں کھو چکے ہيں۔ یہ ادارہ حکومتوں پر زور ديتا ہے کہ اس مسئلے کا حل تلاش کيا جائے۔