جرمنی ميں پرتشدد جرائم ميں اضافہ، وجہ نوجوان مہاجر مرد بھی
عاصم سلیم
3 جنوری 2018
جرمنی ميں کرائے گئے ايک تازہ مطالعے ميں يہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ تین چار برسوں کے دوران ملکی سطح پر پُرتشدد جرائم ميں جو اضافہ ہوا ہے، اس کی ایک وجہ بڑی تعداد میں جرمنی آنے والے نوجوان مرد تارکين وطن بھی بنے۔
اشتہار
اس مطالعے میں خاص توجہ اس بات پر بھی دی گئی کہ مہاجرين جن جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، ان کے اسباب کيا ہيں اور ان کا سدباب کيسے کیا جا سکتا ہے؟ مطالعے کے نتائج کے مطابق نوجوان مرد تارکين وطن اس ليے مختلف جرائم کی طرف راغب ہوتے ہيں کہ انہيں ایک میزبان معاشرے کے طور پر جرمنی ميں اپنا کوئی مستقبل نظر نہيں آتا۔ اس کے علاوہ ایک دوسری وجہ يہ ہے کہ زیادہ تر تارکین وطن مسلم اکثریتی ممالک سے جرمنی آئے ہيں، جہاں روایتی طور پر مردوں کو سماجی حیثیت میں خواتین پر برتری حاصل ہوتی ہے جبکہ جرمنی ميں ایسا نہيں۔ یہ فرق بھی ان تارکین وطن کو کسی حد تک جرائم کی ترغیب دیتا ہے۔
اس مطالعے کے محرک جرائم اور ان کے اسباب پر تحقيق کرنے والے معروف جرمن ماہر کرسٹيان فائفر تھے، جنہوں نے دو ديگر ماہرين ڈِرک بائر اور زوئرین کلیم کے ساتھ مل کر یہ جائزہ مکمل کیا۔ نوجوانوں اور خاندان امور کی وفاقی جرمن وزارت کی مدد سے مکمل کیے گئے اس مطالعے کے نتائج بدھ تين جنوری کو جاری کيے گئے۔
ان ماہرين نے سن 2014 سے لے کر سن 2016 تک کے درميانی عرصے میں جرمنی ميں ہونے والے پرتشدد جرائم کا جائزہ ليا۔ جرمن صوبے لوئر سيکسنی ميں اس دوران پر تشدد جرائم کی شرح ميں 10.4 فيصد اضافہ دیکھا گيا۔ ان اضافے جرائم ميں سے قریب بانوے فيصد کی کڑياں کسی نہ کسی طرح مہاجرين اور تارکین وطن سے ہی ملتی تھیں۔
ان مہاجرین میں سے بھی شمالی افريقی ممالک سے آنے والے تارکین وطن جرائم ميں زیادہ ملوث پائے گئے۔ نتائج کے مطابق لوئر سیکسنی میں شامی، عراقی اور افغان تارکين وطن پرتشدد جرائم ميں نسبتاً کم جبکہ مراکش، الجزائر اور تيونس سے آنے والے مہاجرين زیادہ ملوث پائے گئے۔ مزید یہ کہ ايسے جرائم کے مرتکب نوجوان مرد تارکين وطن کی عمريں اکثر چودہ سے تيس برس تک کے درميان تھیں۔
کرسٹيان فائفر، جو وفاقی جرمن صوبے لوئر سيکسنی کے ایک سابق وزير انصاف بھی ہیں، کہتے ہیں کہ شمالی افريقی ممالک سے آنے والے مہاجرين کو پناہ گزينوں کو طور پر نہ ديکھنا غلط ہو گا لیکن حکومت کو اپنی پالیسی پر نئے سرے سے غور کی بہرحال ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی میں نئی وفاقی مخلوط حکومت کے قيام کے ليے اس وقت جو ابتدائی سیاسی مذاکرات جاری ہیں، ان میں بھی پناہ گزينوں سے متعلق آئندہ پالیسیوں پر بات چیت کی جانا چاہیے۔
کرسٹیان فائفر کے بقول جرمن حکومت کو چاہیے کہ ان مہاجرين میں سے جو پناہ کے حقدار نہیں ہیں، ان کی ان کے آبائی ممالک واپسی کے ليے ٹھوس پروگرام تشکيل دينے کی ضرورت ہے اور حکومت کو ان پروگراموں کے لیے درکار کافی مالی وسائل بھی فراہم کرنا ہوں گے۔ کرسٹيان فائفر نے کہا کہ جو مہاجرین جرمنی سے واپس جائیں، ان کی ان کے آبائی ممالک کی حکومتوں کو بھی بھرپور مدد کرنا چاہیے۔
ہالينڈ ميں مجرم کم پڑ گئے، جیلیں مہاجرين کا ٹھکانہ
يورپی ملک ہالينڈ ميں جرائم اس قدر کم ہو گئے ہيں کہ متعدد قيد خانے اکثر خالی پڑے رہتے ہيں۔ اب حکومت نے معمولی رد و بدل کے ساتھ جيلوں کو مہاجر کيمپوں ميں تبديل کر ديا ہے جہاں کئی پناہ گزين گھرانے زندگی بسر کر رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
جيل ميں گزر بسر مگر قيدی نہيں
مہاجرين کے بحران کے عروج پر 2015ء ميں 59 ہزار پناہ گزينوں نے ہالينڈ کا رخ کيا تھا۔ پچھلے سال سياسی پناہ کے ليے ہالينڈ پہنچنے والوں کی تعداد البتہ قريب ساڑھے اکتيس ہزار رہی۔ اس تصوير ميں ايمسٹرڈيم کے نواحی علاقے Bijlmerbajes ميں قائم ايک سابقہ قيد خانہ ديکھا جا سکتا ہے، جسے اب ايک مہاجر کيمپ ميں تبديل کر ديا گيا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
عبادت گاہ بھی يہی، گھر بھی يہی
اريتريا سے تعلق رکھنے والی انتيس سالہ تارک وطن ميزا نگاڈٹو ايمسٹرڈيم کے نواح ميں واقع Bijlmerbajes کی ايک جيل ميں اپنے کمرے ميں عبادت کرتے ہوئے ديکھی جا سکتی ہيں۔ قيديوں کی کمی کے نتيجے ميں ڈچ حکام نے ملک کے کئی قيد خانوں کو مہاجرين کے ليے عارضی رہائش گاہوں ميں تبديل کر ديا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
ايک ہی چھت تلے نئے رشتے بنتے ہوئے
رواں سال تين جولائی کو لی گئی اس تصوير ميں افريقی رياست برونڈی سے تعلق رکھنے والا سينتيس سالہ ايمابلے نسبمانا اپنے ہم عمر ساتھی اور کانگو کے شہری پارسپر بسيکا کو سائيکل چلانا سکھا رہا ہے۔ يہ دونوں بھی ايمسٹرڈيم کے مضافاتی علاقے ميں قائم ايک سابقہ جيل ميں رہائش پذير ہيں اور بظاہر وہاں موجود سہوليات سے کافی مطمئن نظر آتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
گھر کی ياد تو پھر بھی آتی ہی ہے
افريقی ملک ايتھوپيا سے تعلق رکھنے والی چاليس سالہ پناہ گزين ماکو ہوسیٰ مہاجر کيمپ کی ايک کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے۔ معروف ڈچ شہر ايمسٹرڈيم کے نواح ميں واقع اس سابقہ جيل کو ايشيا، مشرق وسطیٰ اور شمالی افريقہ سے آنے والے تارکين وطن کے ليے کيمپ ميں تبدیل کر ديا گيا ہے۔ در اصل وہاں موجود سہوليات اور عمارت کا ڈھانچہ مطلوبہ مقصد کے ليے کارآمد ثابت ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
ننے مہاجر بھی موجود
اس سال تيس جون کو لی گئی اس تصوير ميں پانچ سالہ ساندی يزجی اپنے ہاتھ ميں ايک موبائل ٹيلی فون ليے ہوئے ہے۔ شام ميں الحسکہ سے تعلق رکھنے والی يہ بچی شايد کسی سے رابطے کی کوشش ميں ہے۔ يزجی بھی ديگر مہاجرين کی طرح Bijlmerbajes کے مقام پر واقع اس سابقہ جيل ميں رہائش پذير ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
بچوں کے ليے تفريح کا انتظام
انتظاميہ نے صرف بالغوں کی ہی نہيں بلکہ بچوں کی ضروريات پوری کرنے کے ليے بھی انتظامات کر رکھے ہيں۔ اس تصوير ميں شام سے تعلق رکھنے والے دو بھائی عزالين مصطفیٰ اور عبدالرحمان بائيں طرف کھڑے ہوئے احمد اور عامر کے خلاف ٹیبل فٹ بال کھيل رہے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Muheisen
’وہ جنہيں ہم پيچھے چھوڑ آئے‘
اريتريا کی تيئس سالہ سانٹ گوئيٹوم اپنے اہل خانہ اور ساتھيوں کی تصاوير دکھا رہی ہیں۔ وہ يہ تصويريں اپنے ساتھ لے کر آئی ہیں۔ کيمپ ميں زندگی اکثر خالی اور بے مقصد لگتی ہے اور ايسے ميں اپنے بہت ياد آتے ہيں۔